’کلبھوشن کو بچانے کے لیے پاکستانی عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا‘
19 مئی 2017بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں اپنی ’بڑی سفارتی فتح ‘ اور ’تاریخی کامیابی ‘ کے بعد حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس کامیابی کا سہرا وزیر اعظم نریندر مودی کے سر باندھ رہی ہے جب کہ عوام نے بھی راحت کی سانس لی ہے اوراس فتح کا جشن منارہے ہیں۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی تاریخی ہے کہ بھارت کے ذریعہ پاکستان کے ایک فوجی طیارہ کو مار گرائے جانے کے معاملے پردونوں ملکوں نے جب آئی سی جے سے 1999ء میں رجوع کیا تھا تو بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا تھا کہ اسے اس کیس کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن اٹھارہ برس بعد اس نے بدلے ہوئے حالات میں ایک مختلف نتیجہ اخذ کیا۔
مودی حکومت اس بات سے خوش ہے کہ اس نے اپنے ایک شہری کو نہ صرف پھانسی دیے جانے سے بچا لیا ہے بلکہ بھارت پر عائد یہ الزام بھی ایک طرح سے غلط ثابت ہوگیا کہ وہ پاکستان میں بلوچستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے یادیو کو مبینہ طور پر بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے ۔ اس فیصلے کے بعد مستقبل میں اگر بھارتی سکیورٹی فورسز کسی مبینہ پاکستانی دہشت گرد کو گرفتار کرتی ہیں تو پاکستان بھی قونصلر رسائی کے لیے آئی سی جے سے رجوع کرسکتا ہے اوردہشت گردی کے مشتبہ مجرموں پر ویانا کنونشن کا اطلاق نہ ہونے کی پاکستان کی دلیل کوبین الاقوامی عدالت انصاف نے جس طرح مسترد کیا ہے اس کے بھارت پر بھی دور رس اثرات پڑسکتے ہیں۔
آئی سی جے کے حکم کے بعد گو کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ بھارت یادیو کو بچانے کے لیے کوئی کسر باقی نہیں رکھے گا تاہم پاکستان آئی سی جے کا فیصلہ ماننے کے لیے پابند نہیں ہے اور پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ ایسی صورت میں بھارت کے لیے بہت زیادہ خوش ہونے کا موقع نہیں ہے۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر پروین سوامی کا اس حوالے سے کہنا ہے، ’’بھارت نے اخلاقی فتح حاصل کی ہے لیکن سیاست میں اخلاقی فتح پر کوئی انعام نہیں ملتا اور اخلاقی شکست پر کسی طرح کی شرمندگی نہیں ہوتی ۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’کلبھوشن یادیو کی زندگی پاکستان کے ان جنرلوں کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے انہیں ایران سے اغوا کیا تھا۔ وہ پاکستان میں سیاسی قیادت اور آرمی کے درمیان برتری کی جنگ میں محض ایک مہرہ تھے اور رہیں گے۔‘‘
انڈین سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کے سابق نائب صدر منی متھو گاندھی کا کہنا تھا، ’’آئی سی جے کی یہ بات درست ہے کہ پاکستان اس کے فیصلے پر عمل کرنے کا پابند ہے لیکن اگر پاکستان نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا توبھارت کے پاس کیا چارا کار رہ جائے گا۔ فی الحال ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جواس طرح کے احکامات پرعمل درآمد کراسکے۔ میرے خیال میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے انصاف کو نافذ کرانا حقیقت پسندانہ متبادل نہیں ہے کیوں کہ اس ادارہ کی نوعیت سیاسی ہے جہاں فیصلے کیس کی میرٹ پر نہیں بلکہ ووٹنگ کی بنیاد پرکیے جاتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ یہاں ایک حلقہ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان آئی سی جے کے حکم کوماننے سے انکار کرتا ہے تو بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرنا چاہیے۔اس حوالے سے سابق خارجہ سیکرٹری سلمان حیدر کا کہنا تھا، ’’پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلے کونظر اندازکرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر پاکستان اسے نظر اندازکر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا توخود اس کے لوگ خوش نہیں ہوں گے، عالمی برادری کی تو بات ہی الگ ہے۔ اسے کہیں سے حمایت نہیں ملے گی اور جہاں تک چین کی طرف سے ویٹو کیے جانے کا خدشہ ہے تو چونکہ اس معاملے سے بیجنگ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے اس لیے وہ دخل نہیں دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آئی سی جے کے خلاف نہیں جائے گا۔‘‘
یہاں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ چارٹر کے مطابق آئی سی جے کوئی اپیل عدالت نہیں ہے جہاں ممالک یا افراد مجرمانہ معاملات میں اپنی شکایتیں لے کر جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل دباؤ پاکستان کے سپریم کورٹ یا اس اپیل کورٹ پر ڈالنے کی ضرورت ہے جسے فوجی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرنے کا اختیار ہے۔ بھارت کو بھی اسی پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیوں کہ آئی سی جے میں اگر حتمی فتح ہوجاتی ہے تب بھی اس کے نتیجے میں یادیو تک صرف قونصلر رسائی ہی مل سکے گی لیکن اگر پاکستان کی اپیل کورٹ میں شکست ہوجاتی ہے تواس کامطلب ہے یادیو کے لیے تمام راستے بند ہوجائیں گے۔