1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کلنٹن نے ایران کے علی اکبر کے بیان کا خیر مقدم کیا

27 ستمبر 2009

امریکہ نے ایران کی طرف سے بین الا قوامی جوہری توانائی ایجنسی IAEA کو اس کے نئے جوہری پلانٹ کا معائنہ کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Jplv
تصویر: picture alliance / abaca

امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے نیو یارک میں رپورٹرز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ تہران کی طرف سے بین الاقوامی قوائد و ضوابط کا احترام کرنا خوش آئیند ہے۔

Ali Akbar Salehi
ایران کے جوہری پروگرام کے سربراہ علی اکبر صالحی نے کہا کہ تہران کو مقررہ ضوابط کے تحت جوہری پلانٹ کے معائنے پر کوئی اعتراض نہیں ہےتصویر: ISNA

ایران کے جوہری پروگرام کے سربراہ علی اکبر نے سرکاری ٹیلی وژن کے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر محمود احمدی نژاد کے اسی بیان کو دہرایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تہران حکومت کو مقررہ ضوابط کے تحت جوہری پلانٹ کے معائنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ علی اکبر نے بتایا کہ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے ساتھ بات چیت کے بعد معائنہ کاروں کے دورے کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔

علی اکبر کے بیان کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نےکہا کہ انہوں نے سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور اومان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ مذاکرات میں بھی ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر بھی بات کی۔ نیو یارک میں خلیجی عرب ریاستوں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد ہلیری کلنٹن نے اس امید کا اظہار کیا کہ جینیوا میں یکم اکتوبر کی بات چیت سے قبل ایران تمام بین الاقوامی خدشات کو دور کرے گا۔

USA Deutschland G- 20 Gipfel Angela Merkel und Barack Obama
امریکی شہر پٹسبرگ میں امریکی صدر باراک اوباما جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ہمراہتصویر: AP

اس سے قبل جمعہ کو امریکی صدر باراک اوباما نے ایران پر زور دیا تھا کہ اسے یکم اکتوبر کو اپنے متنازعہ جوہری پروگرام سے متعلق مجوزہ مذاکرات میں’’شفافیت کے ساتھ تمام معلومات فراہم کردینی چاہییں‘‘ جبکہ روس اور چین نے بھی تہران حکومت سے تعاون کرنے کی اپیل کی۔

دوسری جانب ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مغربی ممالک کے تمام خدشات کو ایک مرتبہ پھر ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیا تھا۔

باراک اوباما نے ریاست پینسلوینیا کے شہر پٹسبرگ میں جی ٹوئنٹی کے دو روزہ سمٹ کے آخری روز ایران کے حوالے سے اپنے موقف میں پہلی بار سختی کا برملا مظاہرہ کیا۔ اوباما نے تہران کے خلاف فوجی کارروائی کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا تاہم ساتھ ہی کہا کہ سفارت کاری کے عمل کو ہی ترجیح دی جائے گی۔

Mahmud Ahmadinedschad
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نیویارک میں ایک پریس کانفرنس کے دورانتصویر: AP

امریکی صدر نے مزید کہا کہ جوہری عدم پھیلاوٴ کے حوالے سے عالمی طاقتیں آج اتنی متحد ہیں جتنی پہلے کبھی نہیں تھیں۔ اوباما نے واضح طور پر کہا کہ ’’جوہری پروگرام پرُ امن ہونے سے متلعق ایران کے قول و فعل یعنی لفظوں اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔‘‘

ادھر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے جمعہ کے روز نیو یارک میں ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی نیوز کانفرنس میں اس امید کا اظہار کیا کہ یکم اکتوبر کو ہونے والے مذاکرات میں ضرور پیش رفت ہوگی اور ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کے خدشات خود بخود دور ہوجائیں گے۔

اپنے ملک میں جوہری افزودگی کے ایک اور پلانٹ کے انکشاف کے حوالے سے ایرانی صدر نے کہا کہ تہران حکومت نے کوئی قانون نہیں توڑا ہے۔ احمدی نژاد نے کہا کہ تہران حکومت نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی IAEA کو اٹھارہ ماہ قبل ہی اپنے نئے جوہری پلانٹ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

Ahmadinejad mit Uran Zentrifugen
مغربی ملکوں کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کی تیاری میں ہے لیکن تہران کا اصرار ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

احمدی نژاد نے کہا کہ ان کی حکومت بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو نئے جوہری پلانٹ کا جائزہ لینے کی اجازت دینے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی۔ ایرانی صدر نے زور دے کر کہا کہ اس کا جوہری پروگرام ’’ہر لحاظ سے پرامن ہے۔‘‘

احمدی نژاد نے امریکی صدر کی طرف سے ظاہر کئے جانے والے خدشات کے بارے میں کہا: ’’امریکی صدر باراک اوباما کوئی جوہری ماہر نہیں ہیں۔ ایران کے ایٹمی پروگرام پر ماہرانہ رائے دینے کا حق صرف IAEA کو حاصل ہے۔‘‘

اس سے قبل برطانوی وزیر اعظم گورڈن براوٴن اور فرانسیسی صدر نکولا سرکوزی نے پٹسبرگ میں ایران کے دوسرے ایٹمی پلانٹ کے حوالے سے زبردست خدشات ظاہر کئے اور کہا کہ ’’ایران عالمی برادری کو دھوکہ دے رہا ہے۔‘‘

Annäherung beim Weltfinanzgipfel Flash-Galerie
امریکہ، برطانیہ اور فرانس ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیںتصویر: AP

امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسی عالمی طاقتیں ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے تہران حکومت پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کے حق میں ہیں جبکہ اس بار روس اور چین بھی ایران پر پابندیاں لگانے کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں۔

چین نے تہران پر زور دیا کہ اسے ایٹمی توانائی ایجنسی کی طرف سے اپنے نئے جوہری پلانٹ کی ممکنہ تفتیش میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنی چاہییں جبکہ روسی صدر میدویدیف نے کہا کہ تہران کو اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔

یکم اکتوبر کے مذاکرات میں ایران کی نمائندگی اعلیٰ مذاکرات کار سعید جلیلی کریں گے۔ ان مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد ہونے کے امکانات ہیں۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: عابد حسین