کم سن بچی سے زیادتی، پادری چالیس سال کے لیے جیل میں
2 مارچ 2016بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا میں پادری سنیل کے جیمز سالویشن آرمی چرچ میں کام کرنے والی کم سن لڑکی کے ساتھ سن 2014 میں جنسی زیادتی کرنے کا مرتکب ہوا تھا۔ استغاثہ نے عدالت میں شہادتوں کے ساتھ ثابت کر دیا کہ اُس نے بچی کے ساتھ کئی مرتبہ جنسی فعل سرزد کیا تھا۔ عدالت نے اِس پادری کو جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیتے ہوئے چالیس برس کی قید کی سزا سنائی ہے۔ مقدمے کے لیے مقرر خصوصی وکیل استغاثہ پائس میتھیوز کا کہنا تھا کہ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مجرم زیادہ سے زیادہ سزا کا مستحق ہے۔
عدالتی کارروائی کے دوران خصوصی وکیل استغاثہ نے عدالت پر واضح کیا کہ پادری نے کم سن بچی کو گرجا گھر کی مقدس عمارت کے اندر کئی مرتبہ اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ استغاثہ کے مطابق مجرم نے تقریباً دو ماہ تک بارہ سالہ بچی کے ساتھ سفاک ہوس ناکی کا کھیل جاری رکھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں پادری سنیل کے جیمز کے بارے میں سخت کلمات درج کرتے ہوئے کہا کہ وہ سزا کی مدت میں کمی کا مستحق بھی نہیں۔ اُس پر بیس ہزار بھارتی روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
پولیس پادری کے بارے میں ابھی مزید تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے اور خیال کیا گیا ہے کہ اُس نے اسی عرصے میں ایک اور کم سن بچی کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کی تھی۔ پادری کی عمر سینتیس برس ہے۔ پادری کو چالیس برس کی قید سزا اُس پر لگائی گئی دو فوجداری دفعات کے تحت دی گئی۔ ایک دفعہ کا تعلق جنسی جرائم سے بچوں کی نگہداشت سے ہے اور اِس کے تحت اُسے بیس برس کی سزا سنائی گئی۔ دوسری دفعہ کا تعلق بھارتی فوجداری قانون کے تحت بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے سے ہے۔ اِس کے تحت بھی علیحدہ سے پادری کو بیس برس کی سزا دی گئی۔ عدالتی فیصلے سے یہ ظاہر نہیں کہ دونوں سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی یا یکے بعد دیگرے مکمل کی جائیں گی۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں انسانی حقوق کی ایک غیرسرکاری تنظیم ہیومن رائٹس لا نیٹ ورک سے منسلک خاتون سمرتی منوچا کا کہنا ہے کہ یہ بلاشبہ ایک غیرمعمولی سزا ہے۔ منوچا کے مطابق بھارت میں تو عمر قید کی سزا چودہ برس میں پوری ہو جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتوں میں بچوں کی زیادتی کے مقدمے اکثر و بیشتر عدم دستاویزات اور ثبوتوں کی کمی کی بنیاد پر نظر انداز ہو جاتے ہیں اور لڑکیوں کی آبروریزی اور جنسی زیادتی کے سنگین مقدمات ہی خاص توجہ طلب کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بھارت میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات گھروں، اسکولوں اور بورڈنگ ہاؤس تعلیمی اداروں میں اکثر ہوتے ہیں اور تھانے میں رپورٹ درج کروانے کے باوجود پولیس اہلکار تفتیشی عمل میں اتنی تاخیر کر دیتے ہے کہ ثبوت ضائع ہو جاتے ہیں۔