کم سِن لڑکیوں میں بریسٹ کینسر کے بڑھتے خطرات
5 جنوری 2014بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیاں چھاتی کے کینسر سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کر سکتی ہیں۔ اس بارے میں امریکا کی مشیگن یونیورسٹی کے مححقیقن نے ریسرچ کی ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ کم سنی میں روغنی غذا کے استعمال سے پرہیز کرنے والی لڑکیوں میں آگے چل کر بریسٹ کینسر یا چھاتی کے سرطان کے خطرات کافی کم ہو سکتے ہیں۔
مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے یہ تجربہ چوہوں پر کیا۔ تین ہفتے تک ان چوہوں کو ہائی فَیٹ ڈائیٹ یا چربی سے بھرپور غذا دی گئی، جس کے بعد سائنسدانوں کو پتہ چلا کہ ان چوہوں کی چھاتیوں کی ساخت میں تبدیلی رونما ہونے لگی۔ نیز ان کے امیون سیلز یا مدافعتی خلیوں کی نشو و نما میں اضافہ اور تبدیلی ظاہر ہونے لگی۔
محققین نے اندازہ لگایا کہ خلیوں کی یہ تبدیلیاں دائمی ہوتی ہیں اور یہ بظاہر بے ضرر ماہیت پر مبنی یہ تبدیلیاں کچھ عرصے بعد چھاتی کے سرطان کا موجب بن سکتی ہیں۔
بیسل ٹائپ بریسٹ کینسر
تازہ ترین تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سِن بلوغت میں سیچوریٹڈ فَیٹ سے بھرپور غذا کا استعمال خواتین کے اندر آگے چل کر چھاتی کے سرطان کے خطرات میں غیر معمولی اضافہ کر دیتا ہے۔ سیچوریٹڈ فَیٹ یا ایسی چربی یا روغن جو ٹرائی گلیسرائیڈ پر مشتمل ہو، چھاتی کے سرطان کا موجب بن سکتا ہے۔ ٹرائی گلیسرائیڈ دراصل گلیسرول اور تین تیزابی اصلیوں سے تیار شدہ چربی ہوتی ہے، جو تیل اور گھی وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔ جانوروں سے حاصل کردہ سیچوریٹیڈ فَیٹ مکھن، گھی، پنیر، چربی کے حامل گوشت، ناریل کے تیل اور روغن تاڑ میں پایا جاتا ہے۔
محققین نے ایک مزید تشویشناک انکشاف یہ کیا ہے کہ سیچوریٹیڈ فَیٹ سے بھرپور غذا سرطان زا رسولیوں یا ٹیومرز میں ایک مخصوص قسم کے جین کی موجودگی کا سبب بنتی ہے۔ یہ ٹیومرز سرطان کی مختلف اقسام پر مشتمل ایک چھوٹے اور خاص قسم کے گروپ میں شامل ہوتے ہیں، جنہیں ’بیسل ٹائپ‘ یا ٹرپل نیگیٹیو بریسٹ کینسر کہا جاتا ہے۔
اس تحقیقی عمل میں شامل محققہ سوزن جی کومن کے مطابق امریکا میں چھاتی کے کینسر کی اقسام میں 15 سے 20 فیصد ’بیسل ٹائپ‘ کینسر ہے، جو زیادہ تر کم عمر خواتین میں پایا جاتا ہے۔
مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے کالج آف ہیومن میڈیسن کی فزیالوجی کی پروفیسر سنڈرا ہاسلم کہتی ہیں، "بد قسمتی سے سرطان کی یہ قسم بہت جارحیت کے ساتھ اور تیزی سے پھیلتی ہے، یہاں تک کہ مرض کے ابتدائی مرحلے ہی میں یہ چھاتی کے علاوہ جسم کے دیگر اعضاء تک پھیلنا شروع ہو جاتی ہے"۔ سنڈرا کے مطابق یہ امر تعجب کا باعث نہیں کہ سرطان کی دیگر اقسام کے مقابلے میں ’بیسل ٹائپ‘ کینسر کی شکار خواتین کے بارے میں پیشین گوئی کہیں زیادہ مایوس کُن ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "یہ نہایت اہم بات ہے کہ گرچہ کینسر کا مرض خلیوں کے جینز میں تغیرات پیدا ہونے کے بے ترتیب عمل سے جنم لیتا ہے تاہم ’بیسل ٹائپ‘ کینسر میں سیچوریٹڈ فَیٹ سے بھرپور غذا کا استعمال کافی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اُدھر اس ریسرچ کی رپورٹ کے شریک مصنف اور مائیکرو بائیالوجی کے پروفیسر رچرڈ شوارٹس نے ایک اہم نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "ہماری اس تحقیق کے دوران ہائی فَیٹ یا چربی سے بھرپور غذا کا استعمال وزن میں اضافے کا سبب بنتا دکھائی نہیں دیا، اس لیے یہ امر زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ ’بیسل ٹائپ‘ کینسر کے خطرات محض اوور ویٹ یا زیادہ جسمانی وزن کے حامل افراد کو ہی لاحق نہیں بلکہ اس سے معاشرے کا وسیع تر حصہ متاثر ہو سکتا ہے"۔ پروفیسر شوارٹس کے بقول، ’قصور وار چربی ہے نہ کہ وزن کا بڑھنا۔‘