1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کنڈوم کب ایجاد ہوا؟ ایک تاریخی جائزہ!

13 فروری 2023

کنڈوم ایک بہترین ایجاد قرار دی جاتی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف ناپسندیدہ حمل روکا جا سکتا ہے بلکہ سیکس سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچنے میں بھی یہ کارآمد ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4NQgw
Iran - Teheran
تصویر: Rouzbeh Fouladi/ZUMA Press Wire/picture alliance

معلوم تاریخ کے مطابق کنڈوم جیسا کسی شے کا پہلی بار تذکرہ تین ہزار قبل مسیح میں ہوا۔ بعد ازاں سوتی کپڑوں سے بنے کنڈوم کی تاریخ قدیمی مصری تہذیب سے ملتی ہے۔ پھر قدیم روم کے باسیوں نے بھیڑ کی انتڑیوں اور مثانوں سے کنڈوم بنانا شروع کیے۔

زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ کنڈوم کی کارکردگی، بنت، نفاست اور شکل میں بہتری آتی گئی۔ آج کل تو جدید سائنسی پیمانوں اور مشینوں سے بنے کنڈومز اپنے مقصد کے حصول میں بہت ہی زیادہ کارآمد ہو چکے ہیں۔

اگرچہ آج بھی کنڈوم سے سو فیصد مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہو سکا ہے تاہم ایک مطالعے کے مطابق اگر اسے درست انداز میں استعمال کیا جائے تو ناپسندہ حمل سے بچنے کی امید اٹھانوے فیصد ہو گی۔

چونکہ انسان خطا کا پتلا قرار دیا جاتا ہے، اس لیے غلطی کا احتمال تو رہتا ہی ہے، اس لیے ناخواہش کردہ حمل سے بچنے میں یہ ستاسی فیصد تک کارمد ہیں۔ یعنی ایسے افراد، جو مانع حمل کی خاطر صرف کنڈوم ہی استعمال کرتے ہیں، ان ہر سو میں سے تیرہ کنڈوم کے استعمال کے باوجود حمل کو نہیں روک سکتے۔

یورپ میں جنسی بیماریوں کا تیزی سے پھیلاؤ

فرانس میں نوجوانوں کو کنڈوم مفت فراہم کرنے کا فیصلہ

اس کے باوجود کنڈومز نے بالخصوص خواتین کو جنسی حوالے سے آزادی دی ہے۔ محفوظ سیکس کا یہ ایک ایسا تاریخی طریقہ بھی ہے، جس نے بہت سے زندگیاں بھی بچائی ہیں۔

کنڈوم کی تاریخ

ایک کہانی یونانی کنگ مِنوس کے بارے میں بھی مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تین ہزار قبل مسیح میں بکرے کے مثانے سے بنا کنڈوم استعمال کرنا شروع کیا۔ وہ اپنے سیکس پارٹنرز کو ایک غیرمعلوم جنسی بیماری سے بچانا چاہتے تھے۔ تاہم کہانی یہ مشہور ہو گئی کہ ان کی منی میں سانپ اور بچھو ہوتے تھے۔

مدرسے میں سیکس ایجوکیشن

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ دراصل کنگ منوس نے نہیں بلکہ کنڈوم کا استعمال کرنا، ان کی اہلیہ پاسیفائی نے شروع کیا۔ کہانی ہے کہ سیکس سے قبل وہ اپنی اندام نہانی میں ایک غلاف ڈال لیتی تھیں تاکہ کنک منوس کی منی میں موجود سانپ اور بچھو ان کے نازک اعضا کو کاٹ نہ سکیں۔

تاہم جو کچھ بھی ہو، یہ ایسا پہلا تذکرہ ہے، جو کنڈوم جیسی کسی شے کی طرف دھیان دلا دیتا ہے۔ اس اساطیری کہانی میں بھی اس کنڈوم کے استمعال کا مقصد جنسی بیماری اور حمل سے بچنا ہی تھا۔

ایسے شواہد ملے ہیں کہ جانوروں کے مثانوں یا سوتی کپڑے سے بنے کنڈوم کا استعمال پہلی مرتبہ قدیم مصری تہذیب میں ہونا شروع ہوا۔ یہ آج کے کنڈوم کی طرح تو نہیں تھے لیکن یہ کام تقریبا ایسے ہی کرتے تھے۔

قدیمی کنڈوم

قدیم مصری لوگ بھی سیکس کے دوران پروٹیکشن کا خیال کرتے تھے۔ ماہر آثار قدیمہ ہارورڈ کارٹر اور ان کی ٹیم کو قدیم مصری بادشاہ توتخ آمون (کنک توت) کے مقبرے سے ایک کنڈوم ملا تھا، جس پر اس کے ڈی این اے کی تصدیق بھی ہوئی۔

یہ کنڈوم انتہائی نفیس سوتی کپڑے سے بنا ہوا ہے اور اس کی تیاری میں زیتون کا تیل بھی استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک پٹی بھی ہے، جس کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ کنڈوم چڑھانے کے بعد اس پٹی کو کمر کے ساتھ باندھ لیا جاتا ہو گا۔ یہ کنڈوم تیرہ سو پچاس قبل مسیح پرانا ہے۔

قدیم مصر میں شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ دیگر باعزت لوگ بھی کنڈومز کا استعمال کرتے تھے۔ اس وقت بھی مقصد یہی تھا یعنی بیماریوں سے بچنا اور مانع حمل۔

کورونا بحران جرمنوں کی ’جنسی خواہش‘ کو کم نہ کر سکا

ملکی سالمیت میں کنڈوم کا کردار

اسی طرح قدیم روم میں کنڈومز کا استعمال کیا جاتا تھا۔ روم میں ماہر افراد بکرے کے مثانے اور انتڑیوں سے کنڈوم بناتے تھے۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ کنڈوم بنانے کے لیے رومن فوج کے ہاتھوں مر جانے والے دشمن سپاہیوں کے اعضا بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ تاہم اس کہانی کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔

ربر کے کنڈوم

امریکی موجد چارلس گوڈایئر نے کنڈوم کو موجودہ شکل میں تیار کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس سے قبل کنڈوم کی اشکال انتہائی مختلف تھیں اور اس میں ربر کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔ تاہم چارلس نے 1800ء میں ربر کا پہلا کنڈوم بنا کر اس ایجاد کو ایک نئی شکل دے دی۔

1860ء میں کنڈوم بڑے پیمانے پر تیار کیے جانے لگے۔ تب لیکن یہ کنڈومز انتہائی مہنگے تھے اور لوگ انہیں ایک مرتبہ استعمال کے بعد دھو کر دوبارہ بھی استعمال کرتے تھے۔ تاہم آج کل استعمال شدہ کنڈوم کو دوبارہ استعمال کرنا ممنوع ہے۔

1920 کے عشرے میں لیٹکس (نباتاتی مواد) سے بنا کنڈوم بہت زیادہ مشہور ہو گیا۔ اس قسم کے کنڈوم نے اس صنعت میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ یہ کنڈوم پلاسٹک کے بنے کنڈوم کے مقابلے میں زیادہ باریک اور بہتر ثابت ہوا۔

آج کل بازار میں ملنے والے لیٹکس کنڈومز اپنے سائز سے آٹھ گنا زیادہ اسٹرچ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کنڈومز مختلف ذائقوں، ساخت اور پری لیبریکیٹڈ (چکنائی)  کے ساتھ بھی دستیاب ہیں۔

دوسرا مقبول ترین مانع حمل کا ذریعہ

اقوام متحدہ کے ایک مطالعے کے مطابق سن دو ہزار نو کے دوران کنڈوم مانع حمل کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اس برس مانع حمل کا مقبول ترین طریقہ خواتین کی نس بندی رہا۔

نوجوان ہر وقت کنڈوم اپنے ساتھ رکھیں، ہسپانوی حکومت

بھارت میں ’کنڈومز کی قلت‘ ہوگئی

سیکس سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچنے کی خاطر بھی کنڈوم نے اہم کردار ادا کیا۔ امریکا میں کی گئی ایک اسٹڈی کے مطابق کنڈوم کے استعمال سے ایچ آئی وی سے بچنے کے امکانات نوے تا پچانوے فیصد ہو جاتے ہیں۔

تیرہ فروری کو کنڈوم کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایڈز کی بیماری سے بچنے کی خاطر امریکی ایڈز ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن نے پہلی مرتبہ سن1987 میں کنڈوم کا عالمی دن منایا تھا، جس کے بعد ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے۔ بے شک کنڈوم کی ایجاد نے انسانی صحت میں بہتری کی خاطر انقلابی کردار ادا کیا ہے۔

کلارا بیکر (ع ب، ع ت)

کنڈوم کیا صرف محفوظ جنسی عمل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟