کوئٹہ میں انسداد پولیو مرکز کے باہر بم حملہ، پندرہ ہلاکتیں
13 جنوری 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے کوئٹہ کے پولیس افسر دلاور خان کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس واقعے میں پچیس دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان کے بقول ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 13 کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق اہلکاروں کی گاڑی سٹیلائٹ ٹاؤن میں پولیو ویکسینیشن مرکز کے باہر کھڑ ہوئی تھی، جب یہ دھماکہ ہوا۔ طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ پچیس زخمیوں میں سے دو کی حالت نازک ہے۔
کوئٹہ پولیس کے سربراہ منظور سرور چوہدری کے مطابق، ’’سکیورٹی اہلکار، پولیو ورکرز اور دیگر عملہ گھر گھر جا کر اپنی مہم شروع کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ ان افراد کو اس بم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘ پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کی یہ مہم تین روزہ تھی۔
صوبائی وزارت صحت نے اس واقعے کے بعد اس مہم کو عارضی طور پر ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا یہ کوئی خود کش حملہ تھا یا بارودی مواد پہلے سے وہاں نصب کیا گیا تھا۔ پاکستان میں پولیو ٹیموں کو اس سے پہلے بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ تاہم جب ایسے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو حکومت کی جانب سے ان ٹیموں کی سلامتی کے انتظامات بہتر بنا دیے گئے تھے۔
مئی 2011ء میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پولیو ٹیموں کو ملک بھر میں تواتر سے نشانہ بنایا جانے لگا۔ اس دوران اب تک اسّی سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں پولیو ورکرز کے علاوہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ ایسے واقعات کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپ قبول کرتے رہے ہیں۔ وہ بچوں کو پولیو کے خلاف حفاطتی قطرے پلانے کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں انسداد پولیو مہم کے متاثر ہونے کے بعد ملک میں پولیو کے نئے واقعات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔