کورونا بحران کے درمیان انگیلا میرکل کی مقبولیت میں اضافہ
3 اپریل 2020طویل کرفیو، شہری آزادیوں پربندشیں، دکانوں اور ریستورانوں پر پا بندی، لوگوں کے نقل و حمل پر ایپ کے ذریعہ نگاہ رکھنے جیسے سخت اقدامات کے نفاذ اورحکومت پرقرضوں کا غیر معمولی بوجھ وہ حقائق ہیں جن کا جرمنوں کو ان دنوں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس کے باوجود بیشترجرمن شہری ملک میں نافذ ان پابندیوں کی تائید کرتے نظرآرہے ہیں۔ پبلک براڈکاسٹراے آر ڈی کی طرف سے انفراٹسٹ ڈی میپ کے ذریعہ کرائے گئے ایک عمومی سروے کے مطابق جرمنوں کی بڑی اکثریت حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے ان اقدامات کو مناسب قرار دیتی ہے۔ سروے میں حصہ لینے والوں میں سے 72 فیصد نے کورونا وائرس سے پیدا بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کے طریقہ کار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ صرف دس میں سے تین افراد حکومتی اقدامات کے تئیں شاکی پائے گئے۔
صرف ایک ماہ قبل ہی 25 فیصد جرمنوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں یا ان کے رشتہ داروں کو نویل کوروناوائرس سے متاثر ہوجانے کا ڈرہے لیکن اب 51 فیصد کو یہ خوف ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں مختلف عمر کے گروپ کی سوچ میں بہت معمولی فرق ہے۔ 65 برس سے زیادہ عمرکے53 فیصد افراد اس وائرس سے متاثر ہوجانے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں جبکہ 40 برس سے کم عمر کے 45 فیصد افراد اس خدشے سے دوچار ہیں۔
سوشل ڈسٹینسنگ کے حامی
جرمنوں کی ایک بڑی اکثریت 23 مارچ کو ملک بھر میں نافذ سوشل ڈسٹینسنگ کے سخت قانون کی حامی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے مجموعی طور پر 93 فیصد افراد کا خیال ہے کہ یہ قوانین مناسب ہیں۔
سروے کے مطابق جرمنوں کی نصف تعداد وائرس سے متاثر ہونے کے ممکنہ خطرے سے متنبہ کرنے کے لیے کورونا انفیکشن کا پتہ لگانے اور لوگوں کی نقل وحرکت پرنگاہ رکھنے والے ایپ اپنے اسمارٹ فون میں رضاکارانہ طور پر نصب کرنے کے لیے تیار ہے۔ جبکہ بقیہ نصف تعداد اس کے حق میں نہیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر اس کی وجہ ڈیٹا پرائیوسی بتاتے ہیں۔
جرمن اسپتال کتنے تیار ہیں؟
جن افراد نے سروے میں حصہ لیا ان میں سے دو تہائی نے جرمنی کے ہیلتھ کیئر سسٹم پر بہت زیادہ اورغیرمعمولی اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ جرمنی کے ڈاکٹر اس وبا سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود دس میں سے چار لوگوں نے تمام مریضوں کے علاج کے حوالے سے جرمنی کے پاس خاطر خواہ وسائل کی موجودگی کے متعلق شبہے کا اظہار کیا۔ انہیں یہ تشویش ہے کہ تمام مریضوں کوان کی ضرورت کے مطابق طبی علاج نہیں مل سکے گا۔
شہری آزادیوں کو خطرہ؟
گوکہ ملک بھرمیں نافذ سوشل ڈسٹینسنگ کے قوانین کی بیشتر لوگ حمایت کررہے ہیں تاہم دس میں سے چار جرمنوں کو یہ خدشہ ہے کہ کورونا وبا کے ختم ہوجانے کے بعد بھی ہوسکتا ہے کہ شہری آزادیاں بحال نہ ہوں۔ متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) کے حامی اور بائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد اس حوالے سے سب سے زیادہ فکرمند ہیں۔ ان کے علاوہ کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) یا کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) سے اپنی وابستگی ظاہر کرنے والے 40 فیصد رائے دہندگان نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا۔
جرمنوں کو سب سے زیادہ اس بات کی تشویش لاحق ہے کہ کورونا وبا کے بعد اقتصادی مضمرات کیا ہوں گے۔ 75 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اس وبا کے نتیجے میں جرمنی کی معیشت کو بہت زیادہ یا انتہائی شدید نقصان پہنچے گا۔ بیشتر جرمن اپنی روزی روٹی کے متعلق ابھی زیادہ فکر مند نہیں ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے سروے میں حصہ لیا ان میں سے دو تہائی نے اپنی مالی صورتحال بگڑ جانے کا خدشہ ظاہر کیا۔
حکومت کی مقبولیت میں اضافہ
مجموعی طورپرحکومت کی مقبولیت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ مارچ کے اوائل میں جہاں ہردس میں سے چھ جرمنوں نے حکومت کی کارکردگی پرعدم اعتماد کااظہار کیا تھا اب صورت حال بالکل الٹ گئی ہے۔ پبلک براڈکاسٹر اے آرڈی کے ذریعہ 1997 میں شروع کیے گئے اس سروے کے مطابق سوشل ڈیموکریٹ (ایس پی ڈی)، کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) پرمشتمل حکمراں اتحاد جرمنی کی اب تک کی سب سے مقبول حکومت ہے۔
یہ اتحادی حکومت صرف ایس پی ڈی، سی ڈی یو اور سی ایس یو کے رائے دہندگان میں ہی مقبول نہیں ہے بلکہ گرین اور فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے بہت سے حامی بھی حکومت کی پالیسیوں کی تائید کررہے ہیں۔ بائیں بازو کی جماعت کے حامیوں کی نصف تعداد بھی موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کررہی ہے۔ تاہم اے ایف ڈی کے چھ میں سے صرف ایک ووٹر ہی موجودہ اتحادی حکومت کا حامی ہے۔
سی ڈی یو اور سی ایس یو مقبول ترین
حکومت کی مقبولیت کی شرح میں اضافہ سے ایس پی ڈی کو سب سے کم فائدہ ہورہا ہے۔ سروے میں حصہ لینے والوں میں سے صرف سولہ فیصد نے اس کی حمایت کی۔ ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ اولاف اسکالز واحد رکن پارلیمان ہیں جن کی ریٹنگ بہتر ہوئی ہے۔ ان کی ریٹنگ 63 فیصد رہی جو گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے۔ وہ چانسلر میرکل کے تقریباًبرابر پہنچ گئے ہیں۔ میرکل کی ریٹنگ 64 فیصد ہے جو گزشتہ ماہ کے مقابلے 11فیصد زیادہ ہے۔
سیبین کن کارٹز/ ج ا / ص ز