کورونا وائرس: امریکا میں ڈھائی لاکھ سے بھی زیادہ ہلاکتیں
19 نومبر 2020جان ہاپکنز یونیورسٹی نے امریکا میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کے سلسلے میں جو نئے اعدادو شمار جاری کیے ہیں اس کے مطابق ملک میں اس وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ بدھ 18 نومبر کو امریکا عالمی سطح پر ایسا پہلا ملک بن گیا جہاں کووڈ 19 سے ایک چوتھائی ملین افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اسی روز ایک دن میں مئی کے بعد سب سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا بھی نیا ریکارڈ سامنے آیا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکا میں ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی تھی جبکہ اس سے ایک ہفتے قبل تک یہ تعداد صرف ایک کروڑ تھی یعنی ایک ہفتے میں ہی دس لاکھ کا اضافہ ہوا۔ کووڈ 19 سے ہلاکتوں اور انفکیشن کی شرح، دونوں کے اعتبار سے امریکا دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
اس دوران نیو یارک کے میئر بل ڈی بلاسیو نے وبا کی روک تھام کے لیے جمعرات 19 نومبر سے تمام اسکولوں کو عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیو یارک شہر میں دس لاکھ سے بھی زیادہ طلبہ اسکول جاتے ہیں اور ملکی سطح پر اسکولوں کا سب سے بڑا نظام بھی نیو یارک میں ہی ہے۔ تاہم اب تمام طلبہ کو آن لائن تعلیم دی جائے گی۔
اس دوران امریکا میں کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے تاہم امریکی حکام اور دوا ساز کمپنیوں کے مطابق اب بھی اس میں ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔ جرمن دوا ساز کمپنی بائیو این ٹیک کے چیف اگزیکیٹیو یوگر ساہین نے روئٹرز ٹی وی سے بات چیت میں کہا کہ بہت ممکن ہے کہ امریکا میں غذا اور ادویات سے متعلق ادارہ 'ایف ڈی اے' دسمبر کے دوسرے ہفتے یا پھر اواخر تک، ایمرجنسی کے طور پر ٹیکے کے استعمال، کی منظوری دیدے۔
ان کا کہنا تھا، ''اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تو میرے خیال سے وسط دسمبر تک ہمیں اس کی منظوری مل سکتی ہے اور کرسمس سے پہلے اس کی ترسیل کا آغاز ہوسکتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ تبھی ممکن ہے جب تمام پیش رفت مثبت انداز میں آگے بڑھے۔''
جرمن دوا ساز کمپنی نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں حال ہی میں کہا تھا کہ اس کی ویکسین تقریبا 95 فیصد تک موثر ثابت ہوئی ہے اور اس کے سائیڈ افیکٹس کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس بیان کے بعد ہی امریکا میں محکمہ صحت کے ایک اعلی اہلکار الیکس آزار نے کہا تھا کہ کووڈ 19 سے متعلق فائزر اور موڈرینا کمپنیوں کے ویکسین کو امریکی حکام جلد ہی منظوری دے سکتے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں ہی وہ دستیاب بھی ہو جائے گا۔
اس دوران امریکی ادارے 'فوڈ اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن' نے ملکی سطح پر تیار کردہ اس ٹیسٹنگ کٹ کو منظوری دیدی ہے جسے گھر میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور جس کی مدد سے 30 منٹ کے اندر ہی نتائج سامنے آجاتے ہیں۔ اسے کیلفورنیا کی ایک کمپنی تیار کیا ہے جس کی مدد سے کوئی
بھی اپنی ناک سے نمونہ لیکر اپنا ٹیسٹ خود کر سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے ٹیسٹنگ کا عمل بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا اور یورپ کے متعدد ممالک میں موسم سرما کے آتے ہی کووڈ 19 کی دوسری لہر شروع ہوئی ہے جس سے انفیکشن کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
جرمنی سمیت یورپ کے کئی ملکوں نے اس کی روک تھام کے لیے پھر سے لاک ڈاؤن جیسی بندشیں عائد کرنے کا آغاز کیا ہے۔ بہت سے ممالک نے قدر ے نرم تدابیر اپنائی ہیں تو بعض نے مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے، روئٹروز)