کورونا وائرس، بھارت میں سیکس ورکرز مالی مشکلات کا شکار
18 اگست 2020اس سال جب 25 مارچ کو بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے خلاف لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تو ملک بھر میں ہزاروں سیکس ورکرز کا ذرائع آمدنی مکمل طور پر بند ہوگیا۔ امداد کے باوجود ان کے لیےگزارا کرنا کافی مشکل ہوگیا۔ ممبئی میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی بانی پریتی پرکار کا کہنا ہے، ''جون کے آخر تک سیکس ورکرز کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ ممبئی میں پولیس کافی متحرک تھی لہذا ممبئی کے قحبہ خانوں میں تمام سرگرمیاں بند تھیں۔ خواتین کو راشن وغیرہ تو فراہم کیا گیا لیکن وہ اپنے گھروں کے کرائے ادا نہ کر سکیں اور نہ ہی اپنے قرض اتار سکیں۔‘‘
بحران کے آغاز سے ہی سیکس ورکرز سمیت غربت کے شکار افراد کو حکام مدد فراہم کر رہے ہیں۔ سیکس ورکرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'دا دربار کلیکٹو‘ کا کہنا ہے، ''حکومت صرف ایسے افراد کو مدد فراہم کرتی ہے جن کے پاس راشن کارڈ ہے۔ بھارت میں پچاس فیصد سے زیادہ خواتین کے پاس راشن کارڈ نہیں ہیں اور نہ ہی متعلقہ کاغذات ہیں۔‘‘
کووڈ انیس کے بعد کی دنیا
بھارت میں جیسے جیسے لاک ڈاؤن کی سختیاں کم ہو رہی ہیں، ریڈ لائٹ علاقوں میں سرگرمیاں بھی بحال ہو رہی ہیں۔ ’دا دربار کلیکٹو‘ کی کاجل بوس کا کہنا ہے، '' ہم اپنے گاہکوں کا بخار چیک کرتے ہیں اور گاہکوں کے آنے اور جانے کے بعد کمرے کی صفائی بھی کرتے ہیں۔ کچھ سیکس ورکرز فون سیکس کے ذریعے پیسہ کما سکتی ہیں لیکن زیادہ تر کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔‘‘ پریتی کا بھی کہنا ہے کہ کم آمدنی والی سیکس ورکرز کے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں جس کے ذریعے وہ فون پر گاہکوں سے ڈیل کر سکیں۔
آمدنی کے متبدل ذرائع
پریتی کا کہنا ہے کہ کچھ سیکس ورکرز آمدن کے متبادل ذرائع تلاش کر پائی ہیں۔ 'دا دربار کلیکٹیو‘ چند خواتین سیکس ورکرز کو ماسک اور جراثیم کش مواد کی تیاری میں ملازمت فراہم کرنے میں مدد کر چکی ہے۔ اور مستقبل میں ان خواتین کو 'پی پی ای کٹس‘ کی تیاری کے کام کے ذریعے بھی روزگار میسر ہوگا۔
’ٹوائلٹ‘ کے بعد ’مردانہ کمزوری‘، بالی ووڈ کے نئے موضوعات
پریتی کا کہنا ہے کہ کچھ سیکس ورکرز کو بعض اوقات قحبہ خانوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے اور ان کے لیے اس لاک ڈاؤن میں گھر واپس جانا ممکن نہیں تھا۔ انہیں حالات سے سمجھوتا کر کے اپنے مالی حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا ہوگی۔