کورونا وائرس کا تیز ترین پھیلاؤ: غیر ظاہری علامات والے بچے
31 اگست 2020ایک نئی ریسرچ رپورٹ نے والدین اور اسکولوں میں خوف کی لہر پیدا کر دی ہے۔ اس ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ کئی بچوں اور کم سن طلبا میں مہلک بیماری کووڈ انیس کی علامات بظاہر سامنے نہیں آتیں لیکن وہ مسلسل اس وائرس کو لیے پھرتے ہیں۔ اسکولوں کے دوبارہ کھولے جانے کے بعد سامنے آنے والی اس رپورٹ نے مختلف ملکوں کے حکومتی حلقوں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ رپورٹ کی گونج جرمنی میں بھی سنی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے مرتبین امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے چلڈرنز نیشنل ہسپتال کی دو خواتین ڈاکٹر ہیں۔ ان کے مطابق ظاہری علامات سامنے نہ آنے کے باوجود کورونا وائرس کے حامل بچے دوسروں میں اس بیماری کی منتقلی کا یقینی سبب بن سکتے ہیں۔ اس ریسرچ رپورٹ سے عام تاثر یہ لیا گیا ہے کہ کووڈ انیس بیماری کی انتہائی معمولی علامات والے بچے کئی دوسروں میں یہ مرض شدید انداز میں پیدا کر سکتے ہیں۔
اس سے پہلے امریکی شہر بوسٹن میں مکمل کی گئی ایک دوسری ریسرچ میں بیان کیا گیا تھا کہ بچے اور نوجوان کورونا وائرس کی ایک بڑی مقدار اٹھائے اور بغیر علیل ہوئے گھومتے پھرتے ہیں۔ امریکی دارالحکومت کے چلڈرنز نیشنل ہسپتال کی ریسرچ اٹھائیس اگست کو سامنے آئی ہے۔ یہ ریسرچ معتبر جریدے 'جے اے ایم اے پیڈیارٹکس‘ میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کی سربراہی رابرٹا ایل ڈیبیاسی اور میگھن ڈیلینی نے کی۔ انہوں نے جنوبی کوریا کے بائیس ہسپتالوں سے ڈیٹا جمع کیا تھا۔
ریسرچر رابرٹا ڈیبیاسی کا کہنا ہے کہ امریکا کے مقابلے میں جنوبی کوریا میں کورونا وائرس سے بیمار ہونے والے بچوں کو اس وقت تک ہسپتال میں رکھا جاتا جب تک اس میں سے وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا اور انفیکشن سے پوری طرح نجات نہیں مل جاتی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جنوبی کوریا میں اس وائرس سے بیمار ہونے والے بچوں کی ہسپتال میں داخل رہنے کی مدت بھی مختلف ہے۔ وہاں ایسے بچے تین دن سے تین ہفتے تک انفیکشن کی وجہ سے ہسپتال میں رکھے گئے۔
ریسرچر نے یہ بھی واضح کیا کہ اس معاملے میں مزید تحقیق کی ابھی بہت ضرورت ہے۔ بوسٹن اور واشنگٹن کی ریسرچ میں بچوں اور نوجوانوں کو کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ کے 'سُپر اسپریڈر‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ کئی بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ انیس بیماری کی ظاہری علامات کا نشان بھی نہیں ملتا اور وہ بالکل بیمار نہیں دکھائی دیتے اور وہ معمول کی سرگرمیوں یعنی اسپورٹس کے ساتھ اچھل کود بھی کرتے پھرتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ والدین یا خاندان کے بزرگ قطعاً بچوں کے کووڈ انیس میں مبتلا ہونے کی بات کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اس میں ہلاکت کا بھی تذکرہ شامل ہو جاتا ہے۔ والدین کسی بھی طور پر اپنے بچوں کے حوالے سے ایسی بات پسند نہیں کرتے۔ یہ بھی اہم ہے کہ بچے اپنے سماجی رویوں میں بڑوں سے زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ وہ اس فعالیت میں ہدایات کے باوجود سماجی فاصلے اور حفظان صحت کے بنیادی اصولوں کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ان کو مسلسل گھر لوٹنے پر ہاتھ دھونے کی تاکید کی جاتی ہے اور ایسا نہ کیا جائے تو وہ ہاتھ دھونے کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔
دوسری جانب جرمنی کو ہمسایہ ملکوں فرانس اور بیلجیم کی طرح کووڈ انیس بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی بڑھتی تعداد کا سامنا ہے۔ ان نئے متاثرین میں نوجوان مریض غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ موسم گرما کی تعطیلات کے ختم ہونے کے بعد ہی یہ تعداد بڑھنا شروع ہوئی ہے۔
الیگزانڈر فروئنڈ (ع ح، ا ا)