1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس کوڈ، کیا کمپیوٹر ماڈلنگ مددگار ہو سکتی ہے؟

18 مارچ 2020

اسٹیفان فلاشے نامی ایک جرمن سائنسدان کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ اور اس کی شدت میں زیادتی و کمی کا جائزہ لے کر یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس کے ارتقا کا عمل کیسے آگے بڑھے گا۔

https://p.dw.com/p/3ZcmH
Coronavirus in Brasilien Nachweis per DNA
تصویر: Reuters/R. Patrasso

برطانوی دارالحکومت لندن میں مقیم جرمن سائنسدان اسٹیفان فلاشے ریاضی کے اصولوں اور کمپیوٹر ماڈلنگ کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وائرس اور اس کی وجہ سے پھیلنے والی بیماری کووڈ انیس مستقبل میں کیسے پھیلیں گے۔

سوال: آپ لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں ریاضی اور ایپیڈیمیولوجی کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔ آپ نے کورونا وائرس کی نئی قسم کا ماڈل تیار کیا ہے۔ آپ اس وائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

اسٹیفان فلاشے: ہم کورونا وائرس کی نئی قسم کے دنیا بھر میں پھیلاؤ اور اس کی شدت میں زیادتی و کمی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بالخصوص یوکوہاما، جاپان میں ایک کروز شپ پر وائرس کے پھیلاؤ سے ہمیں بہت کچھ پتا چلا۔ ہم نے بیماری کو قرنطینہ ماحول میں دیکھا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ انفکشن کا شکار بننے والوں میں اموات کی اوسط شرح ایک فیصد ہے اور اس سے کم عمر افرادکوکم جبکہ عمر رسیدہ افراد کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔

سوال: ہم ری پروڈکشن نمبر کے بارے میں بہت سن رہے ہیں، یہ کیا ہے؟

UK Stefan Flasche
فلاشے کے مطابق کسی بہتری سے قبل خراب صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہےتصویر: DW/C. Potts

اسٹیفان فلاشے: ری پروڈکشن نمبر میتھامیٹیکل ماڈلنگ کا ایک اہم جزو ہوتا ہے۔ وائرس کا شکار ایک فرد اوسطاً جتنے افراد میں وائرس منتقل کرتا ہے، اسے ری پروڈکشن نمبر کہا جاتا ہے۔ کورونا وائرس کی نئی قسم کا شکار ایک فرد دو سے ڈھائی افراد میں وائرس منتقل کر سکتا ہے۔

سوال: مجموعی کیسز کی پیشن گوئی کیوں مشکل ہے؟

اسٹیفان فلاشے: وائرس کے چند ایسے مریض بھی ہو سکتے ہیں جن میں ظاہری طور پر کوئی علامات نہ ہوں لیکن وہ بھی وائرس منتقل کر سکتے ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ دس سے تیس فیصد مریضوں میں یہ وائرس ان افراد سے پھیل رہا ہے جن میں ظاہری طور پر کوئی علامات دکھائی نہیں دے رہیں۔ قرنطینہ کی حکمت عملی علامات کی بنیاد پر اپنائی جاتی ہے۔ یوں آپ وائرس کے پھیلاؤ کے ایک بڑے ذریعے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

سوال: کئی ملکوں نے سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں اور بارڈر بند کر دیے ہیں، کیا اس سے کوئی فرق پڑے گا؟

اسٹیفان فلاشے: سفری پابندیوں کا مقصد وائرس کے شکار افراد کا کسی جگہ داخلہ روکنا ہے۔ یہ طریقہ اس وقت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جب وائرس کے شکار کی تعداد کم ہو کیونکہ آپ وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کم کر دیتے ہیں۔ جب وائرس کا پھیلاؤ مسلسل اور زیادہ ہو، تو یہ طریقہ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔

سوال: اور کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟

اسٹیفان فلاشے: ایک اور طریقہ ان گروپوں پر توجہ دینا ہے، جنہیں زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ یہ حکمت عملی عموماً انفکشن کے کیسز میں کی اپنائی جاتی ہے۔ کووڈ انیس کو مات دینے کی ایک ممکنہ حکمت عملی بزرگ افراد کو مکمل قرنطینہ کر دینے کی ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں وہ سب سے نازک ہیں۔

سوال: کیا یہ وائرس اب طویل المدتی بنیادوں پر یہاں ہے؟

اسٹیفان فلاشے: ہم تیاری تو اسی کی کر رہے ہیں۔کم سے کم انسانی تعلق کی پالیسی ڈرامائی تو ہے لیکن یہ کارآمد ثابت ہو سکتی ہے بشرطیہ کہ اس پر عملدرآمد سخت ہو۔ بصورت دیگر یہ وائرس ایک عرصے تک یہاں رہ سکتا ہے۔ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ موسم گرما میں وائرس ختم ہو جائے گا۔