کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج معالجے میں رنگ و نسل کا تعصب
26 دسمبر 2020ایک امریکی سیاہ فام ڈاکٹر کووڈ انیس کی بیماری کے خلاف جاری اپنی جد و جہد میں انجام کار شکست کھا گئی۔ بیماری جیت گئی اور سیاہ فام مریض ڈاکٹر کی زندگی کو موت نے دبوچ لیا۔ اس ڈاکٹر نے اپنی موت سے قبل طبی عملے کے تعصبانہ رویے کی شکایت بھی کی تھی۔ یہ شکایت سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور صارفین نے امریکی ہیلتھ سسٹم پر شدید تنقید کی۔ تنقید کرنے والوں نے ریاستی حکام سے اس معاملے کی شفاف تفتیش کا مطالبہ بھی کیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں صارفین کی پوسٹس کو دیکھتے ہوئے امریکی ریاست انڈیانا نے اس افسوس ناک واقعے کی مکمل انکوائری کرانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔کورونا ویکسین کی تقسیم، امیر اور غریب ممالک میں واضح تفریق
امریکی ریاست انڈیانا کی سیاہ فام ڈاکٹر
جس سیاہ فام ڈاکٹر نے بیماری اور علاج میں تعصبانہ برتاؤ کی شکایت کی تھی، ان کا نام سُوزن مُور اورعمر 52 برس تھی۔ انہیں گزشتہ ماہ کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بیماری میں شدت آنے کے بعد ڈاکٹر مُور کو ریاست انڈیانا کے دارالحکومت انڈیانا پولس کے شمال میں واقع شہر کارمل کے انڈیانا یونیورسٹی سسٹم نارتھ ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
یہ تفصیلات سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بھی پوسٹ کی گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بیماری کی شدت سے آگاہ تھیں اور انہوں نے کئی مرتبہ مناسب علاج کی درخواست بھی کی لیکن اسے نظر انداز کیا جاتا رہا۔
ڈاکٹر سُوزن مُور کا ویڈیو پیغام
خاتون ڈاکٹر مُور کا کہنا تھا کہ اگر وہ سفید فام ہوتی تو ان کے ساتھ طبی عملے کا برتاؤ ایک اور انداز میں ہوتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ دوائی دینا تو دور کی بات نارتھ ہسپتال کے عملے نےاسکیننگ اور معمول کے معائنہ کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ مور نے واضح طور پر بیان کیا کہ انہوں نے ایک سفید فام ڈاکٹر کو اپنی بیماری اور درد کی شدت بھی بیان کی لیکن اس ڈاکٹر نے ان تفصیلات کو پوری طرح نظرانداز کردیا۔جو بائیڈن نے کورونا ویکسین لگوا لی
مُور کی ایک ویڈیو رواں برس چار دسمبر کو فیس بک پر اپ لوڈ ہوئی اور اس میں وہ کہتی ہیں، ''اگر میں ایک سفید فام ہوتی تو اس طرح کےسلوک کا سامنا نہیں کرتی۔‘‘ اس ویڈیو میں یہ بات کرتے ہوئے ان کی آواز شدتِ کرب سے بیٹھ گئی۔ انہوں نے مزید کہا، '' اس انداز میں سیاہ فام افراد کو ہلاک کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اکیلے بیماری کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘‘
نارتھ ہسپتال سے ڈسچارج
ڈاکٹر سُوزن مُور کو سات دسمبر کے روز کارمل کے نارتھ ہسپتال سے یہ کہہ کر فارغ کر دیا گیا کہ اب انہیں مزید علاج کی ضرورت نہیں۔ اپنی ویڈیو میں انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر سے کہتی رہیں کہ وہ ابھی تندرست نہیں ہوئیں لیکن ان کی تمام گفتگو ان سنی کر دی گئی۔ مُور کے مطابق جب ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا، اس وقت ان کا بخار زیادہ اور بلڈ پریشر کم تھا۔ ان کو چند دوسرے ہسپتالوں میں بھی لے جایا گیا۔
ان کے انیس سالہ بیٹے ہنری محمد نے ایک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ نارتھ ہسپتال سے فارغ کیے جانے کے بعد ان کی والدہ کی طبیعت بگڑتی گئی اور ایک ہسپتال میں انہیں بیس دسمبر کو وینٹیلیٹر پر ڈال دیا گیا لیکن وہ سنبھل نہیں سکی۔ ہنری محمد کے مطابق ان کی والدہ کو غیر معیاری علاج کا سامنا رہا۔
ڈاکٹر سُوزن مور میشیگن میں پلی بڑھی اور انہوں نے وہیں سے سن 2002 میں میڈیکل کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ انڈیانا میں میڈیکل پریکٹس کا لائسینس لے کر ڈاکٹری کی پریکٹس کرتی تھیں۔اقوام عالم کورونا ویکسین ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں
نارتھ ہسپتال کا انکوائری کرانے کا فیصلہ
انڈیانا یونیورسٹی ہیلتھ سسٹم کے صدر اور چیف ایگزیکٹو افیسر ڈاکٹر ڈینس مرفی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ ڈاکٹر سوزن کی موت پر افسردہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیکل ٹیم کی جانب سے ٹیکنیکل امداد نہ دینے پر یقین نہیں ہے اور اس مریضہ کو فراہم کیے گئے مکمل علاج کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر پہلو کا جائزہ لینے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں اور اس کے لیے ماہرین کا پینل ترتیب دے دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مرفی نے واضح کیا کہ تعصب کے ہر پہلو پر تادیبی اقدام کیا جائے گا۔
ع ح، ع آ (اے پی)