1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس: کیا بھارت تھرڈ اسٹیج میں پہنچ گیا ہے؟

26 مارچ 2020

بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرین کی مصدقہ تعداد اور ہلاکتوں میں مسلسل اضافے کے درمیان یہ سوال انتہائی شدت کے ساتھ پوچھا جارہا ہے کہ کیا بھارت اس مہلک وبا کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے؟

https://p.dw.com/p/3a3sY
Indien Kalkutta Migranten Arbeiter Coronavirus Covid-19 Gastarbeiter
تصویر: Reuters/R. De Chowdhuri

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اکیس روزہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب، پسماندہ اور روزانہ مزدوری کر کے زندگی گزارنے والوں کے لیے سوشل ڈسٹنسنگ ممکن نہیں ہو پارہی ہے جبکہ کورونا وائرس سے بدھ 25 مارچ تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد سولہ اور متاثر ہونے والوں کی تعداد 650  پہنچ گئی۔

ایسوسی ایشن آف سرجنس آف انڈیا کے صدر پدم شری ایوارڈیافتہ ڈاکٹر پی رگھو رام نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لحاظ سے اگلے چند ہفتے انتہائی اہم ہوں گے،’’ ہمیں تمام چیزوں کو ریکارڈ وقت میں درست کر لینے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دینی ہوگی۔‘‘

ڈاکٹر پی رگھورام کا کہنا تھا کہ خدا نہ کرے کہ یہ وائرس تیسرے اسٹیج یا کمیونٹی ٹرانسمیشن کی صورت اختیار کرے کیوں کہ اس کے بعد اسے مکمل وبا کی صورت اختیار کرنے سے روکنا بہت مشکل ہوگا اور اگر ایسی کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو بھارت اتنی بڑی تباہی کا مقابلہ کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔

ڈاکٹر رگھو رام کے مطابق بھارت کے خراب پبلک ہیلتھ سسٹم کو فوراً سے پیشتر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ اس وائرس سے متاثر ہونے والے بیشتر مریضوں میں ہلکا انفکشن پایا گیا اور صرف پانچ فیصد مریضوں کو ہی آئی سی یو میں دیکھ بھال کی ضرورت پڑی۔ لیکن بھارت میں فی ایک ہزار افراد پر بھی اسپتال میں ایک بیڈ دستیاب نہیں ہے اور ملک میں ہر سال ایسے پچاس لاکھ مریضوں کے لیے جنہیں آئی سی یو میں داخل کرانے کی ضرورت ہوتی ہے، ستر ہزار سے بھی کم بیڈ ہیں۔

Indien Neu Delhi Coronavirus
بھارت میں صحت کے شعبے میں انفرااسٹرکچرکی زبردست کمی ہےتصویر: DW/A. Sharma

ڈاکٹر رگھو رام کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں کمیونٹی ٹرانسمیشن کو روکنا سب سے بنیادی کام ہے۔ بھارت میں اب تک تقریباً صرف اٹھارہ ہزار افراد کی جانچ کی گئی ہے۔ جبکہ جنوبی کوریا جیسے چھوٹے ملک میں (جس کی آبادی بھارت کی ایک ریاست تمل ناڈو کے برابر ہے) ہر روز بارہ سے پندرہ ہزار افراد کی جانچ کی گئی اور جانچ کے نتائج کی بنیاد پر حکمت عملی اپنا کر اس وبا کو قابو میں رکھنے میں کامیابی ملی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کورونا وائرس سے مشتبہ متاثرین کی جانچ میں تیزی نہیں لائی گئی تو اس وبا کو پھیلنے سے روکنا مشکل ہوجائے گا۔ مشتبہ افراد کی جلد از جلد جانچ اور متاثرہ شخص کو قرنطینہ کر کے ہی اس وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

دہلی کے وزیر اعلی کیجریوال نے بھی گزشتہ دنوں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کورونا وائرس تیسرے مرحلے میں پہنچ گیا تو ملک میں دستیاب ہیلتھ انفرااسٹرکچر اس سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے اور اس کے نتیجے میں اموات کی تعداد میں کافی اضافہ ہوسکتی ہے۔

بھارت میں اس وقت 63 لیباریٹریز میں کووڈ۔انیس کے ٹیسٹ کی سہولیات دستیاب ہیں جب کہ نو دیگر لیباریٹریز جلد ہی کام شروع کردیں گی۔

 بھارت کے حکومتی ادارے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کا کہنا ہے کہ کووڈ۔انیس بھارت میں ابھی تیسرے اسٹیج میں نہیں پہنچا ہے لیکن بعض ماہرین اس دعوے پر شبہ کا اظہار کررہے ہیں۔ کیوں کہ اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تیسرا اسٹیج یا کمیونٹی ٹرانسمیشن اس صورت حال کو کہتے ہیں جب کووڈ۔انیس کی تصدیق ہوجانے کے بعد یہ پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ اس متاثرہ شخص تک انفیکشن کیسے پہنچا۔ آئی سی ایم آرکا کہنا ہے کہ وہ صورت حال پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہے اور دیکھ رہا ہے کہ بھارت میں کورونا وائرس کے تیسرے مرحلے میں داخل ہونے کا کتنا خدشہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اس سے کے بھارت میں تیسرے مرحلے میں بہت جلد پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے حالانکہ لاک ڈاؤن کا اعلان کرکے لوگوں کی آمدورفت بڑی حد تک محدود کردی ہے۔ تاہم اس کے باوجود لوگ اس کی خلاف ورزی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

Indien Hyderabad Coronavirus Ausgangssperre
لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ اس کی خلاف ورزی کرتے دکھائی دے رہے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Kumar

ڈاکٹر پی رگھورام کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بھارت میں تیسرے مرحلے میں پہنچنے کی بات کرنے کا مطلب لوگوں کو خوف زدہ کرنا قطعی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ممکنہ صورتحال کے لیے خود کو تیار رکھیں۔ تیسرے مرحلے کی صورت میں لوگوں کو پہلے سے کہیں زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ سماجی دوری کے ساتھ سماجی اتحاد کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا ۔سماج کے کمزور اور پسماندہ طبقات پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں حکومت کو قصوروار ٹھہرانے پر سارا زور صرف کرنے کے بجائے اس کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات میں تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔

جاوید اختر، نئی دہلی