کورونا وبا کا خاتمہ صرف ویکسین سے ممکن نہیں، ڈبلیو ایچ او
25 اکتوبر 2021ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں واضح کیا کہ صرف ویکسین سے کورونا وبا کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اس پر زور دیا کہ غریب ممالک تک ویکسین کی فراہمی اور اس سے جڑی معلومات کی تقسیم بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور خاتمے کے لیے ضروری ہے۔
پاکستانی عوام کو سو ملین کورونا ویکسینز لگائی جا چکی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کورونا وائرس کی ہیت میں تبدیلی رونما ہوتی رہے گی اور اس کے متغیر پیدا ہوتے رہیں گے۔
ویکسین مؤثر ہے لیکن سو فیصد نہیں
عالمی ادارہ صحت کی سینیئر اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ویکسین بھی کورونا وبا کو کنٹرول کرنے کا ایک ٹُول ہے اور یہ کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ اس وبا کا فوری خاتمہ ممکن ہو جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس وبا کے لیے ویکسین یقینی طور پر مؤثر ہے لیکن یہ انفیکشن کا سو فیصد علاج نہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ انتہائی مہلک انفیکشن اپنی جگہ لیکن ویکسینیشن کے بعد اس وائرس کی شدید انداز میں منتقلی کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
ایک ارب کووڈ ویکسین کا سنگ میل عبور، مودی کا قوم سے خطاب
ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اس وقت بھی ایسے ممالک ہیں جہاں انفیکشن کی افزائش بہت تیز ہے اور اس کی منتقلی کی شرح بھی خاصی زیادہ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس وائرس کے ویریئنٹ یا متغیر مسلسل جنم لے رہے ہیں اور یہ لوگوں کو اپنی گرفت میں بھی تیزی کے ساتھ لیتے جا رہے ہیں۔
وبا کا خاتمہ ویکسین کی مساوی تقسیم پر ہے
عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان ایچ آئی وی اور تپ دق امراض کی ماہر ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں واضح کیا کہ کورونا وبا کے پھیلاؤ نے عالمی عدم مساوات کو ظاہر کر دیا ہے اور اس عدم مساوات نے وبا کے دہرے معیار کو بھی آشکارا کر دیا ہے۔
اپنی اس بات کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کے ایک حصے میں ایک بڑی آبادی کو ویکسین کی مکمل خوراکیں دی جا چکی ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ زندگی معمول کی جانب رواں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری جانب بدقسمتی سے دنیا کی نصف آبادی کا بہت بڑا حصہ ویکسین سے محروم ہے۔ ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن کے مطابق افریقی براعظم کی صرف دو فیصد آبادی کو ویکسین ملی ہے اور اس حصے میں زندگی کو معمول پر آنے میں بہت وقت درکار ہے۔
نئی تحقیق: کئی سائنسدان کورونا ویکسین بوسٹرز لگانے کے خلاف
ایک اور وبا کے لیے تیار رہیں
ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن نے بین الاقوامی برادری پر واضح کیا کہ وہ مستقبل کی وبا سے چوکنا رہیں اور اس سے محفوظ رہنے کے عمل پر سرمایہ کاری اور عملی اقدامات کریں تا کہ دنیا گزشتہ بیس ماہ کے مہلک اثرات سے باہر نکل سکے وگرنہ اقوامِ عالم کو نہایت مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ان کے نزدیک وبا سے محفوظ رہنے کی بنیاد کسی بھی وائرس یا اس کے ویریئنٹ کو فوری طور پر شناخت کرنے پر ہے۔
عالمی ادارے کی اعلیٰ سائنسدان کا کہنا ہے کہ وبا سے محفوظ رہنے کے منصوبوں پر بھی فنڈنگ درکار ہے تا کہ عالمی سطح پر معلومات کی شیئرنگ ممکن ہو سکے۔
کورونا وبا کی موجودہ صورت حال
ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن کے مطابق کینیڈا، ڈنمارک اور پرتگال ایسے ممالک ہیں جہاں کی پچھتر فیصد آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اور ایسے ممالک، مثال کے طور پر نائجیریا، ایتھوپیا، شام اور افغانستان بھی ہیں جہاں ویکسین لگانے کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق دنیا کے پچاس فیصد آبادی کو ابھی ویکسین کی ایک خوراک دی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل اور جاپان میں ڈیلٹا پلس نے معالجین کو فکرمند کر دیا ہے کہ یہ بہت زیادہ مہلک ہو سکتا ہے۔
وائرس برسوں کہیں نہیں جائے گا، ڈبلیو ایچ او
ڈاکٹر سوامیناتھن کے مطابق بعض ترقی یافتہ ممالک نے وبا کی صورت حال کو کنٹرول میں دیکھتے ہوئے پابندیوں میں نرمی پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے ڈنمارک کی مثال دی جہاں کی چھہتر فیصد آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اور اس ملک میں تقریباﹰ تمام پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں۔
الزبیتھ شوماخر (ع ح/ ب ج)