کورونا کے دو سال: آج بھی وائرس کے نقطہ آغاز پر سوالات
12 جنوری 2022آج سے دو سال قبل کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت کی اطلاع چین کے وسطی شہر ووہان سے موصول ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تب سے اب تک اس وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں 55 لاکھ سے زائد لوگوں کی جانیں جا چُکی ہیں اور تقریباﹰ 315 ملین افراد اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں پوری دنیا نے اس وبا کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے اور بین الاقوامی برادری چین سے شروع ہونے والی اس وبائی بیماری کی وجوہات تلاش کر رہی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی انٹیلیجنس اداروں کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ اس وائرس کے پھیلاؤکی اصل وجوہات کی تحقیقات کریں جبکہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے بارہا بیجنگ پر زور دیا ہے کہ وہ ووہان سے شروع ہونے والی اس وبا کے متعلق جمع کیے گئے اعداد و شمار عالمی برادری کے ساتھ شیئر کرے۔
وائرس پھیلنے کی اصل وجوہات کی کوئی وضاحت نہیں
گزشتہ سال جنوری کے مہینے میں عالمی ادارہ صحت نے سائنسدانوں کی ایک ٹیم چین بھیجی تاکہ کورونا وبا کے پھیلاؤ کی ممکنہ وجوہات کی چھان بین کی جاسکے۔ سائنسدانوں کی اس ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ یہ وائرس تجرباتی لیبارٹری سے پھیلنا شروع ہوا بلکہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے فراہم کردہ ان نتائج پر ماہرین نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ڈبلیو ایچ او وائرس کےپھیلاؤکی اصل وجہ جاننے میں ناکام رہا ہے اور اس کے ماہرین نے عالمی ادارہ صحت پر زور دیا ہےکہ اس بارے میں مزید تحقیق کی جائے۔ اگرچہ ڈبلیو ایچ او نے اس کے بعد اپنی تحقیق کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن چین کی جانب سے اس منصوبے کو مسترد کر دیا گیا اور یہ موقف اپنایا گیا کہ بیجنگ وائرس کے لیک ہونےکا سراغ لگانے والی مزید تحقیقات کو قبول نہیں کر سکتا۔
چینی نیشنل ہیلتھ کمیشن کے نائب وزیر نے جولائی 2021 میں کہا تھا کہ چین نے ہمیشہ سائنسی وائرس ٹیسٹنگ کے اس عمل کی حمایت کی ہے لیکن بیجنگ اس تمام معاملے کو سیاسی رنگ دینے کے سخت خلاف ہے۔ چین میں کورونا انفیکشن سے ہونے والی پہلی موت کے دو سال بعد صحتِ عامہ کے ماہرین اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی اصل وجہ کا پتا لگایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
تائیوان میں اکیڈمیا سینیکا انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ فیلو می شینگ ہو کا کہنا ہے، ''اگر یہ قدرتی طور پر پھیلنے والی وبا ہے اور اگر چین کے پاس 2020 ء میں بھی اس بات کا سراغ لگانے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا تو یہ ناممکن ہے کہ کبھی بھی اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ ووہان میں دو سال پہلے درحقیقت کیا ہوا تھا۔‘‘
انہوں نے اس بارے میں مزید کہا کہ ہمارے لیے وائرس کی اصل وجوہات کے بارے میں مزید جاننے کا واحد ممکنہ طریقہ یہ ہوگا کہ اگر بیرونی دنیا ہمارے ساتھ معلومات کا اشتراک کرنے کے لیے تیار ہو۔ انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا۔
وائرس انتہائی سیاسی مسئلہ بن گیا ہے
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان تحقیقات کی نوعیت اتنی سیاسی ہوگئی تھی کہ سائنسدانوں کواس کا اصل مقصد حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ژی جن جو کہ ژیل اسکول آف پبلک ہیلتھ میں پبلک ہیلتھ پالیسی اور اکنامکس کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی جانب سے یہ معاملہ انتہائی سیاسی ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وائرس سے متعلق تحقیقات بڑے پیمانے پر متاثر ہوئیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''مجھے علم نہیں کہ اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے اور عالمی برادری کس طرح اس وبا کے بارے میں تحقیق کو جاری رکھنے کے لیے اعتماد بحال کر سکتی ہے۔ نیز یہ کہ مستقبل میں اس طرح کی بے اعتباری سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔‘‘
امریکا میں قائم اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار گلوبل ہیلتھ کی ڈائریکٹر چون ہوئی چی کا کہنا ہے کہ چین کی سب سے بڑی غلطی یہ نہیں ہے کہ اس نے اس وائرس کے حوالے سے ڈیٹا شیئر کرنے سے انکار کیا بلکہ ابتدا میں ووہان میں اس کے ممکنہ پھیلاؤ کو چھپانا سب سے بڑی غلطی تھی۔ ان کے بقول، ’’ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ یہ وائرس چین کے شہر ووہان میں نومبر 2019 ء میں پھیلنا شروع ہوا تھا تو پھر چین کی گورنمنٹ نے اس بات کو کیوں چھپائے رکھا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے چین کے عوام اور پوری دنیا نے اتنا نقصان اٹھایا۔ ان کا وائرس کے پھیلاؤ کے متعلق حقائق کو چھپانے کا ابتدائی فیصلہ بالکل ویسا تھا جیسا آمرانہ حکومتیں کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے اپناتی ہیں۔
چین 'زیرو کووڈ‘ نقطہ نظر پر قائم رہنا چاہتا ہے
ووہان میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے دو سال بعد چین نے ایک بار پھر کئی شہروں میں پابندیاں سخت کر دی ہیں تاکہ اس وائرس کے ایک بار پھر پھیلاؤ سے بچا جا سکے۔ گزشتہ ماہ چین کے شہر ژان میں تقریباﹰ 13 ملین لوگ محصور ہو گئے تھے اور اس کے بعدکچھ نے چینی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں معلومات پوسٹ کی تھیں اور اسی دوران حکام کو شہریوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کی افراتفری، جس میں اشیائے خورد نوش اور روزمرہ کے استعمال کی اشیا تک ناقص رسائی کے متعلق شکایات موصول ہوئیں۔
منگل 11 جنوری کو چین کے شہر انیانگ میں قریب پانچ ملین لوگوں کو حکام کی جانب سے گھروں میں رہنے کا حکم جاری کر دیا گیا کیونکہ اس صوبے میں کورونا وائرس کے گھریلو پھیلاؤ کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کچھ مقامی لوگوں کا کہنا تھا حکومت کی جانب سے لگی ان سخت ترین پابندیوں نے انہیں دو سال قبل ووہان میں لگے لاک ڈاؤن اور حکومت کی حکمتِ عملی کی یاد دلا دی ہے۔
ماہرین کے پاس اس بات کی بھی مختلف وضاحتیں ہیں کہ چین وائرس کے پھیلنے کے دو سال بعد بھی زیرو کووڈ حکمتِ عملی کیوں اپنائے ہوئے ہے۔ بیجنگ اپنے سخت ردِ عمل کو باقی دنیا میں 'افراتفری میں کیےگئے اقدامات‘ سے بہتر قرار دیتا ہے۔ چین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ابتداء سے اب تک کورونا وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد سرکاری طور پر ایک لاکھ ہے جو امریکا میں اسی مہینے میں رپورٹ ہونے والے ایک دن کے کیسز کی تعداد سے بھی کم ہے۔ جبکہ چین میں مرنے والوں کی تعداد بھی پانچ ہزار سے کم رہی ہے۔
چین نے مارچ 2020ء سے ہی بہت مؤثر طریقے سے باقی دنیا سے خود کو الگ کیا اور بیرونِ ملک سے آنے والے لوگوں پر پابندی عائد کر دی۔ چین میں سیاحت کا سلسلہ بھی مکمل طور پر روک دیا گیا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ وہ معیاد ختم ہونے والے پاسپورٹس کی تجدید تب تک نہیں کریں گے جب تک ایسا کرنے کی کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو۔
می شینگ ہو کا کہنا ہے کہ ان کو یقین ہے کہ چین کی زیرو کووڈ کی حکمتِ عملی اپنانے کی سب سے بڑی وجہ موسمِ سرما میں ہونے والے اولمپک گیمز ہیں۔ چینی حکام اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کی وجہ سے اولمپک گیمز متاثر نہ ہوں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چین موسمِ سرما میں اولمپکس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے چاہے اسے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔‘‘
ملک 'ری اوپن‘ کرنا چین کے ایجنڈا کا حصہ نہیں
ژیل اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ژی جن کا خیال ہے کہ بیجنگ کے زیرو کووڈ کی حکمتِ عملی پر مُصر رہنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں سہولیات اور اس وبا سے نمٹنے کے طریقہ کار میں کتنا فرق ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مختلف شہروں میں حکام کورونا وبا سے بچاؤ کے لیے مختلف طریقہ کار اپنا رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''اگر چین کا لاک ڈاؤن جلدی ختم ہوجاتا ہے تو ملک کے مختلف حصے اس مسئلے سے یکساں نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ شاید ایک پریشان کن بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ زیرو کووڈ پالیسی پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ وہ مکمل طور پر آگاہ نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ مزید یہ کہ وائرس کے سامنے آنے والے نئے ویریئنٹ نے بیجنگ کو اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ یہ وائرس لمبے عرصے تک موجود رہے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''چین نے دوسرے ممالک کے تجربات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کورونا وبا کے خلاف اپنی پالیسی مضبوط کی ہے۔‘‘
چن کو لگتا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی شکل او میکرون چونکہ اب چین کے مختلف شہروں میں تیزی سے پھیل رہی ہے اس لیے اب یہ امید کم ہی ہے کہ بیجنگ ایک سال کے عرصہ سے پہلے لاک ڈاؤن ختم کر کے ملک کو کھولنے کا ارادہ کرے۔
ملک کو دوبارہ مکمل طور پر کھول دینے کا موضوع چین میں اب ممنوع ہے جس پر صحافی حضرات سوال نہیں اٹھاتے اور کوئی اس بات پر پیشن گوئی بھی نہیں کرتا کہ اگر چین نے لاک ڈاؤن اور سفری پابندیاں مکمل طور پر ختم کر دیں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ انہون نے کہا، ''ہوسکتا ہے کے یہ ایک سال بعد ممکن ہو سکے لیکن چین کی 2022 ء کی حکمتِ عملی میں ملک کو مکمل طور پر دوبارہ کھولنا شامل نہیں ہے۔‘‘
ولیم ژانگ (ر ب/ ک م)