کيوبا ميں ٹيٹُوز کا دوبارہ سے بڑھتا ہوا رجحان
8 فروری 2016ہوانا ميں اپنے اسٹوڈيو ’لا مارکا‘ ميں بيٹھا ماؤرو کوکا بڑی توجہ کے ساتھ ايک خاتون جوليو وچ ماروکيز کے ہاتھ پر نيلے رنگ سے ايک پرندہ بنا رہا ہے۔ اکيس سالہ مارکوئيز کو يہ ٹيٹو بڑا پسند آ رہا ہے اور وہ اس کی تعريف کرتی ہے۔ جيسے جيسے ٹيٹو بنانے والی مشين کی سوئی اُس کی کھال ميں چبھتی ہے، وہ تکليف ميں آہستہ سے اپنی آنکھيں بند کرتی ہے ليکن ساتھ ہی اُس کے چہرے پر مسرت بھی صاف ظاہر ہے۔ جوليووچ اپنے ہاتھ پر لال، نيلے اور ہرے رنگوں سے گوٹے مالا کے قومی پرندے کا ٹيٹو بنوا رہی ہے، جسے مکمل ہونے ميں نو گھنٹے لگيں گے۔
سن 1950ء کی دہائی ميں ہوانا کے ساحلوں پر پہنچنے والے ملاح اور سياح اکثر جسم پر ٹيٹُوز بنوايا کرتے تھے۔ پھر سوشلسٹ انقلاب نے ٹيٹُوز بنوانے کی صنعت کو کافی متاثر کيا اور يہ کام بہت حد تک ’انڈر گراؤنڈ‘ ہو گيا۔ طبی محکموں کے اہلکار اور پوليس والے صحت کے لحاظ سے مضر ہونے کے خدشے کے سبب ٹيٹُوز بنانے والے اسٹوڈيوز پر چھاپے مارنے لگے۔
آج کل البتہ کيوبا ميں جسم پر ٹيٹُوز بنانے کا رجحان دوبارہ سے بڑھ رہا ہے۔ ديگر کئی عوامل کی طرح کيوبا ميں ٹيٹُوز بنوانا نہ تو غير قانونی ہے اور نہ ہی اُس کی کھلے عام اجازت ہے۔ يہ عمل قانون کے نہ اِس پار ہے اور نہ اُس پار، جسے کيوبا کے باشندے ’alegal‘ کا نام ديتے ہيں يعنی نہ غير قانونی اور نہ ہی قانونی۔ ٹيٹُوز بنانے کے ليے سامان عام دکانوں سے خريدا نہيں جا سکتا، جس کا مطلب ہے کہ يہ سامان سياحوں کے سامان کے ساتھ کيوبا پہنچتا ہے۔
پچھلی صدی میں کافی عرصے تک کيوبا کے عام شہری ٹيٹُوز کو جرائم پيشہ افراد سے جوڑتے تھے، جو جيلوں ميں قيام کے دوران اپنے جسموں پر مختلف اقسام کے ٹيٹوز بنوايا کرتے تھے۔ پھر سن 2000ء کے بعد سے زيادہ سياحوں کی آمد کے ساتھ اِس عمل کی ساکھ بدلتی گئی اور آج يہ دوبارہ سے ايک ابھرتی ہوئی صنعت ہے۔