کَيلے ميں مہاجرين کی زندگی کے عکاس پوسٹ کارڈز
17 دسمبر 2015کَيلے ميں قائم مہاجر کيمپ اس وقت تقريبا ساڑھے چار ہزار پناہ گزينوں کا گھر ہے۔ ان مہاجرين نے ’کاش ہم يہاں نہ ہوتے‘ کے عنوان تلے کارڈز کی فروخت شروع کی ہے۔ وہ ان کارڈز کو سياحوں کو بيچنا چاہتے ہيں۔ مہاجرين کے بقول وہ اس اقدام سے دنيا کو يہ پيغام دينا چاہتے ہيں کہ وہ کَيلے ميں اپنے قيام کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں ميں ہيں۔
کيمپ ميں مقيم ايک اکتيس سالہ شامی استاد بارا حلبيح بتاتا ہے، ’’ہم قابل تعريف چيزوں کے علاوہ ہميں درپيش مشکلات کی عسدکاس دونوں طرح کی چيزوں کی تصاوير کھينچتے ہيں۔‘‘ اس کے بقول وہ ان مناظر اور لمحات کو مستقبل کے ليے پوسٹ کارڈز کی صورت ميں محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ ’’ميں ايک ايسے وقت کا تصور کرتا ہوں کہ جب يہاں موجود جنگل ختم ہو چکا ہو گا اور يہاں سے گزرنے والے يہ سوچ تک نہيں پائيں گے کہ يہاں کبھی ايسی بھيانک جگہ ہوا کرتی تھی۔‘‘ حلبيح کے بنائے ہوئے پوسٹ کارڈز آج بروز جمعرات سے 1.09 ڈالر فی پوسٹ کارڈ فروخت کيے جا رہے ہيں۔
کَيلے کے ميئر نے اسی ماہ شہر کے سوئمنگ پولز ميں تارکين وطن کا داخلہ ممنوع قرار دے ديا تھا۔ ان کی شکايت ہے کہ منفی خبريں اس مقام کی ساکھ متاثر کر رہی ہيں اور اسی سبب سياح وہاں کا رخ نہيں کر رہے۔
فوٹوگرافر سيورن ساژو نے فيس بک پر ايک گروپ بنا رکھا ہے، جس ميں مہاجرين سے کہا گيا ہے کہ وہ کَيلے کے مہاجر کيمپ ميں اپنی زندگی کو تصاوير کے ذريعے بيان کريں۔ ان کے بقول وہ اميد کرتی ہيں کہ يہ نئے پوسٹ کارڈز شہر کی دکانوں پر فروخت کيے جا سکيں۔
فرانس کے اس حصے ميں پناہ گزينوں کے خلاف جارحيت کا عنصر بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ مہاجرين مخالف سياسی جماعت نيشنل فرنٹ حاليہ اليکشن کے دوران کالے ميں ڈالے جانے والے ووٹوں ميں سے نصف حاصل کرنے ميں کامياب رہی۔ کَيلے کے کيمپ ميں موجود لوگ برطانيہ پہنچنے کے خواہشمند ہيں ليکن اس سلسلے ميں ناکامی کے سبب اب وہاں کی صورتحال مستقل بنيادوں پر ايسی ہی ہوتی جا رہی ہے۔