’کَیلے مہاجر کیمپ کی بندش سے مسئلہ حل نہیں ہو گا‘
11 اکتوبر 2016ان امدادی تنظیموں کی جانب سے فرانسیسی حکومت کے اس منصوبے پر تنقید کی جا رہی ہے، جس کے تحت اس بدنام مہاجرین بستی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ حکومتی منصوبہ ہے کہ یہاں موجود مہاجرین کو ملک کے مختلف علاقوں میں قائم مہاجر کیمپوں میں منتقل کر دیا جائے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ پیرس حکومت نے اس مہاجر بستی کی مکمل بندش کی کسی تاریخ کا اعلان تو نہیں کیا، تاہم یہاں مقیم مہاجرین کو دیگر علاقوں میں منتقل کرنے کا کام جلد شروع ہونے کو ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس بستی کا مکمل خاتمہ رواں برس کے اختتام تک ہو جائے گا۔
جنگل کے نام سے مشہور کَیلے کی اس مہاجر بستی میں قریب نو ہزار مہاجرین مقیم ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ کَیلے شہر کے نواح میں اس کچی بستی سے مہاجرین کا پہلا گروپ اگلے ہفتے دیگر علاقوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔
امدادی ادارے اماؤس کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مہاجرین کی منتقلی کے آپریشن سے قبل اٹھائے گئے ہیومینٹیرین اقدامات ناکافی ہیں۔ اس تنظیم کے نمائندے فرانسیسی وزارت داخلہ کے حکام سے ملاقات کر رہے ہیں۔
اماؤس فرانس کے سربراہ ٹیری کوہن کے مطابق، ’’حکومت ایک بند گلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ہمیں اپنا سر ریت میں دفن نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔ اگر ان مہاجرین کو بہتر زندگی اور مستقبل کا کوئی منصوبہ نہ دیا گیا، تو یہ ایک بار پھر واپس لوٹنا شروع ہو جائیں گے۔‘‘
مسیحی چرچ سے وابستہ ایک اور امدادی ادارے سیکو کیتھولک نے بھی اس مہاجر بستی کی بندش کے حکومت اعلان کی مخالفت کی ہے۔
واضح رہے کہ انگلش چینل ٹنل کے قریب فرانسیسی علاقے میں مقیم یہ مہاجرین غیرقانونی طور پر سرنگ کراس کر کے برطانیہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور کئی بار ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں میں چھپ کر برطانیہ جانے کی کوشش میں ان مہاجرین کی ہلاکتیں بھی ہو چکی ہے۔ فرانس اور برطانیہ نے چینل سرنگ کی سکیورٹی انتہائی سخت بنا رکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کَیلے میں ’جنگل‘ نام کی یہ مہاجر کیمپ ایک بستی میں تبدیل ہو چکا ہے۔