1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کُتے پالنا غیر اسلامی عمل نہیں ہے‘

کشور مصطفیٰ25 جون 2016

ایران میں کُتوں کے پریمیوں میں اُس وقت شور مچ گیا جب حکام نےاُن کے پالتو کتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے انہیں ضبط کرنا شروع کر دیا۔ حکام نےپالتو کتوں کی ملکیت کو’عامیانہ مغربی تہذیب‘ کی علامت قراردیتے ہوئےیہ اقدام کیا۔

https://p.dw.com/p/1JDYY
تصویر: picture alliance/AP/Vahid Salemi

صوبہ اصفہان کے شاہین شہر میں ایک پالتو کُتے کے مالک نے اخبار شھروند کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ہفتے اچانک حکام اُس کے گھر آ گئے اور اُس کے کُتے کو اُٹھا لے گئے۔ اُس کا کہنا تھا،’’حکومتی اہلکاروں نے ہمیں کاغذات دکھائے، جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ جانوروں کی دیکھ بھال کے میونسپل ادارے کی طرف سے آئے ہیں۔ وہ گھر میں داخل ہوئے اور یہ کہہ کر ہمارے کُتے کو پکڑ کر لے گئے کہ اُسے ٹیکا لگانے کے لیے لے جا رہے ہیں۔‘‘

کُتے کے مالک کو یہ کہا گیا کہ ویکسینیشن کے بعد اُسے اُس کا کُتا لوٹا دیا جائے گا تاہم جب بعد ازاں وہ ویٹرنری دفتر پہنچا تو اہلکاروں کے پاس اُس کا کُتا تو کُجا، کُتے کا کوئی ریکارڈ تک موجود نہیں تھا۔

Iran Hundehalter
ایرانی معاشرے میں کُتے پالنے کا بہت زیادہ رواج ہےتصویر: Getty Images/AFP/B. Mehri

بعد ازاں میڈیا کی خبروں سے پتا چلا کہ اصفہان کے ایک مقامی پراسیکیوٹر محسن بوسیدی نے ایک کریک ڈاؤن مہم شروع کی ہے اور اُس مالک کا پالتو کُتا اسی کریک ڈاؤن کا شکار ہوا ہے۔ حال ہی میں بوسیدی نے فارس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، ’’کُتے پالنا اور انہیں ساتھ لے کر چلنا مذہبی رہنماؤں کی نگاہ میں ایک حرام عمل ہے۔ اگر ہم نے کسی کو بھی کُتے کے ساتھ دیکھا تو ہم اُس کے خلاف سخت اقدامات کریں گے کیونکہ کُتے پالنا اور انہیں ہمراہ لے کر چلنا ’عامیانہ مغربی تہذیب‘ کو فروغ دینے کے مترادف سمجھا جائے گا۔‘‘

اخبار شھروند کی رپورٹوں کے مطابق شاہین شہر میں رونما ہونے والے اس واقعے کے تین روز بعد حکام کی طرف سے پالتو کُتوں کو ضبط کرنے کی کارروائی شروع ہو گئی تھی۔

جاوید علی داؤد ایران کی سوسائٹی فار اینیمل پروٹیکشن کے سربراہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے جانوروں کو ضبط کرنا ایک غیر قانونی عمل ہے اور اصفہان کے پروسیکیوٹر نے نہایت غلط بات کی ہے اور صریحاً غلط تاثر دیا ہے کہ اسلام پالتو کُتوں کے خلاف ہے اور اس جانور کی طرف مذہب اسلام کا رویہ اتنا منفی ہے۔ جاوید کے بقول،’’کُتے پالنا کسی مذہبی کتاب میں حرام قرار نہیں دیا گیا۔ کُتے پالنے کے عمل کو مغربی تہذیب سے جوڑنا اسلامی تاریخ اور ایرانی تہذیب کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔‘‘

Bildergalerie Teheran Tierheim
تہران سے نزدیک ہشت گرد کے علاقے میں قائم ’وفا اینیمل شیلٹر‘تصویر: picture alliance/AP/Vahid Salemi

عام طور سے اسلامی معاشروں میں کُتے کو نجس اور ناپاک تصور کیا جاتا ہے تاہم ایرانی حکام نے اس بارے میں بالکل واضح موقف ظاہر کر رکھا ہے، جس کے مطابق کُتوں کا کردار بالکل واضح ہے یعنی پراپرٹی کی حفاظت اور نابیناؤں کی راہنمائی کرنا اور ان دونوں کی اجازت مذہب اور قانون دونوں دیتا ہے۔

جاوید علی داؤد نے اپنی آرگنائزیشن کی ویب سائٹ پر متعلقہ پراسیکیوٹر کے نام ایک خط شائع کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شاہین شہر کے گھروں میں حفاظتی کُتوں کی موجودگی سے متعلق مسائل حل ہو چُکے ہیں۔