کپاس کی پیداوار میں کمی: کیا شوگر مافیا ذمہ دار ہے؟
13 فروری 2021یہ امر اہم ہے کہ کاٹن ملک کی سب سے بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری ٹیکسٹائل کے لئے انتہائی اہم ہے، جس سے لاکھوں نہیں بلکہ کرڑوں پاکستانیوں کا بالواسطہ یا بالا واسطہ طور پر روزگار وابستہ ہے۔
تشویش کی لہر
لاہور چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے حال ہی میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کاٹن ایمرجنسی نافذ کرے۔ چیمبر کے صدر میاں طارق مصباح، سینیئرنائب صدر ناصر حمید خان اور نائب صدر طاہر منظور چوہدری نے لاہور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ کپاس کی کمی کے معیشت پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
شوگر مافیا کپاس کی تباہی کی ذمہ دار؟
معروف معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ شوگر کی صنعت سے وابستہ افراد ہیں انتہائی طاقتور ہیں۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نوازشریف، سابق صدر آصف علی زرداری، پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین سمیت ملک کے کئی نامی گرامی سیاست دان اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ بھی اس صنعت میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔
پاکستانی معیشت کی لائف لائن خطرے میں
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت نے شوگر انڈسٹری اور گنا اگانے والے کو سپورٹ پرائس دیے جو کپاس اگانے والوں کو نہیں دیے جاتے۔ شوگر والے حکومت کو مختلف حربوں سے لوٹتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''جب آپ سپورٹ پرائس شوگر کو دینگے، تو کسان وہی اگائے گا کیونکہ کاٹن میں تو یہ رعایت نہیں ہے۔ اسی لئے کپاس کی کاشت میں کمی ہوئی ہے۔‘‘
گنے کی کاشت پر پابندی کیوں ضروری
اس صورتِ حال کے ممکنہ حل کے حوالے سے ڈاکٹر بنگالی کا کہنا تھا کہ، ''ٹھٹہ، بدین، سجاول اور سندھ کے چند ساحلی علاقوں کے علاوہ گنے کی کاشت پر پابندی لگائی جائے کیونکہ گنے کی کاشت کیوبا جیسے ساحلی ملکوں کے لئے موزوں ہے لیکن یہاں پنجاب اور بالائی سندھ میں بھی گنے کی کاشت کی جارہی ہے، جو انتہائی نقصان دہ ہے۔ ہم نے سب چیزیں مارکیٹ فورسز کے رحم وکرم پر چھوڑ دی ہیں، جس کی وجہ سے یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔‘‘
کپاس کی فصل کو تباہ کرنے والی لابی
لیہ سے تعلق رکھنے والے کسان رہنما مظہر نواز خان ڈاکٹر قیصر بنگالی سے اتفاق کرتے ہیں کہ کپاس کو تباہ کرنے میں طاقتور لابی کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سن 1985 میں جب نواز شریف اقتدار میں آیا تو اتفاق فاونڈری نے شوگر فیکڑیوں کے لئے مشینیں بنانا شروع کردیں اور پھر حکومتی پالیسی کے تحت اس طاقتور لابی کو مراعات بھی دینا شروع کردیں اور ساتھ ہی خود بھی اس کاروبار میں کود گئے۔ جب کہ نوے کی دہائی میں کپاس کو سپورٹ پرائس دینا بند کردیا گیا اور شوگرکو یہ اسپورٹ پرائس دیا جانا لگا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملتان، رحیم یار خان، ڈی جی خان، خانیوال، بہاولپور، بہاولنگر، مظفر گڑھ سمیت کئی علاقے جہاں کپاس اگائی جاتی تھی، آج وہاں ہزاروں ایکڑز پر گنا اگایا جارہا ہے، جس سے کپاس کا کاشت کار بے حال ہورہا ہے۔‘‘
گنے کی کاشت بمقابلہ کپاس
تاہم مظفر گڑھ فارمرز ایسویشن سے تعلق رکھنے والے کاشتکار ملک تحسین رضا اس دلیل سے متفق نہیں ہیں۔ ''گنے کی فصل پورے سال کے لئے اگتی ہے جب کہ کپاس چار مہینوں کے لئے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسان کپاس اگاتا ہے تو وہ سال کے باقی مہینوں میں گندم یا دوسری فصل اگاسکتا ہے، تو میرے خیال میں گنا اگانا اسکے لئے مالی اعتبار سے موزو نہیں۔‘‘ ملک تحسین رضا کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں ابھی بھی سوا چار لاکھ ایکٹرز پر کپاس کاشت ہوتی ہے۔''
’بھارت سے کپاس کی درآمد بند کی جائے‘
کپاس کی فصل پر کیڑے مکوڑوں کے حملے
ملک تحسین رضا کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے کپاس کی فصلوں پر کیڑوں یا بیکٹیریا کے حملے ہورہے ہیں۔ جب کپاس تیاری کے قریب ہوتی ہے تو کیڑے مکوڑوں کے حملے شروع ہوجاتے ہیں۔ ہماری پاس بہتر ین کوالٹی کی جراثیم کش ادویات یا کیڑے مار ادویات نہیں ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار میں کمی ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ کاٹن کے لئے ہائی بریڈ یا بی ٹی کاٹن وافر مقدار میں دستیاب نہیں۔ پانی کی عدم فراہمی بھی کچھ علاقوں میں پیداوار میں کمی کا باعث بنتی ہے۔‘‘
بی ٹی کاٹن
معروف معیشت دان ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کا پاکستان میں بی ٹی کاٹن کا استعمال زمین کی پیداواری صلاحیت کو کھا رہا۔ '' بی ٹی کاٹن سیڈز کا استعمال زمین کی پیداواری صلاحیت کو تباہ کر رہا ہے اور ان بیجوں کو ہم پر اس لئے مسلط کیا گیا ہے کیونکہ ڈبلیو ٹی او ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ہم یہ انتہائی مہنگے بیج خریدنے پر مجبور ہیں۔‘‘
کیا یہ نئی سُنڈی ایشیا کی فصلوں کو تباہ کر سکتی ہے؟
ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ برس کپاس اگانے والے سندھ کے تمام علاقوں میں پیداوار بہت کم ہوئی ہے لیکن ان تمام نقصانات کے باوجود ہم نے جی ایم سیڈز کی اجازت دی، جو ہمیں فوری طور پر منسوخ کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ جی ایم سیڈز مہنگے ہوتے ہیں، پانی بہت زیادہ لیتے ہیں اور کپاس کے کاشت کاروں کو مراعات بھی نہیں ملتی۔ ''اس لئے بہت سے کاشت کار خصوصا بڑے جاگیردار گنے کی طرف جارہے ہیں اور اسکی وجہ سے بھی پیداوار میں کمی ہورہی ہے۔‘‘