کچھ شامی باشندوں کو جرمنی سے جانا پڑ سکتا ہے، وزیر داخلہ
5 جنوری 2025جرمن دارالحکومت برلن سے اتوار پانچ جنوری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق نینسی فیزر نے کہا کہ کئی سال تک جاری رہنے والی شامی خانہ جنگی کے باعث لاکھوں شامی شہری اپنے وطن سے رخصتی پر مجبور ہو گئے تھے، جن میں سے تقریباﹰ ایک ملین پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے تھے۔
جرمن حکام نئے سرے سے جائزہ لیں گے
وزیر داخلہ فیزر کے مطابق، ''جرمن قوانین میں درج واضح تقاضوں کے مطابق ترک وطن اور مہاجرین سے متعلقہ امور کا وفاقی جرمن دفتر (BAMF) شام میں داخلی صورت حال میں آنے والے استحکام کے بعد اس امر کا جائزہ لے گا کہ پناہ کے متلاشی جن شامی شہریوں کو جرمنی میں تحفظ دیا گیا ہے، آیا انہیں اب بھی اس کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ شامی شہریوں کو عبوری طور پر دیا گیا یہ تحفظ منسوخ کر دیا جائے۔‘‘
شام: اسد کی معزولی کے بعد جرمن وزیر خارجہ دمشق میں
جرمن وزیر داخلہ نے یہ بات ملک کے فُنکے میڈیا گروپ کے اخبارات کو دیے گئے اس انٹرویو میں کہی، جو آج اتوار کے روز شائع ہوا۔ اس انٹرویو میں نینسی فیزر نے یہ بھی کہا کہ پناہ کے متلاشی جن شامی شہریوں کو جرمنی میں آئندہ قانونی تحفظ حاصل نہیں ہو گا، انہیں واپس اپنے وطن جانا پڑے گا۔
جرمنی میں قیام کی دیگر وجوہات
وفاقی وزیر داخلہ نے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ جرمنی سے شامی پناہ گزینوں کی مخصوص حالات میں وطن واپسی کا اطلاق ان افراد پر ہو گا، جن کے پاس جرمنی میں مقیم رہنے کے لیے کافی ثابت ہونے والی کوئی دیگر وجوہات نہ ہوں۔
نصف سے زیادہ شامی بچے تعلیم سے محروم
نینسی فیزر کے الفاظ میں جرمنی میں برسرروزگار یا تعلیم حاصل کرنے والے شامی باشندوں کے لیے لازمی نہیں ہو گا کہ وہ رضاکارانہ طور پر واپس شام چلے جائیں۔
شامی باشندے اب جرمنی سے واپس جائیں، سابق جرمن وزیر خزانہ
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اس وقت برلن میں جرمن دفتر خارجہ اور وزارت داخلہ مل کر اس بارے میں شفاف اور اصل حقائق جاننے کی کوشش میں ہیں کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ کے اس ملک میں اب حالات کیسے ہیں اور صورت حال کتنی مستحکم ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ کے الفاظ میں، ''ہم خاص طور پر سلامتی کے پہلو پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں جرمن حکومت اپنے یورپی اور بین الاقوامی پارٹنرز کے ساتھ قریبی اشتراک عمل سے کام لے رہی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''جو شامی شہری واپس جانا چاہتے ہیں، ان کی مدد کی جانا چاہیے۔ مجرموں اور مذہبی شدت پسندوں کو جلد از جلد ملک بدر کیا جانا چاہیے۔‘‘
جرمنی میں شامی باشندوں کی تعداد تقریباﹰ ایک ملین
جرمن وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں رہائش پذیر شامی باشندوں کی مجموعی تعداد نو لاکھ 75 ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر شام میں خانہ جنگی سے فرار ہو کر 2015ء میں جرمنی آئے تھے۔
جرمن وفد کی ہیئت التحریر الشام کے نمائندوں سے ملاقات
ان شامی پناہ گزینوں میں سے تین لاکھ سے زائد کو بطور تارکین وطن ثانوی تحفظ حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جرمنی میں قیام کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی تھی کہ انہیں انفرادی سطح پر کسی تعاقب یا جبر کا سامنا تھا، بلکہ اس لیے کہ ان کے ملک میں خانہ جنگی جاری تھی۔
جرمنی: دہشت گردانہ حملے کی سازش میں تین افراد گرفتار
ترک وطن اور مہاجرین سے متعلقہ امور کے وفاقی جرمن دفتر نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ شام میں بدلتے ہوئے حالات اور بظاہر مستحکم ہوتی ہوئی صورت حال کے باعث وہ شام سے آنے والے تارکین وطن کی جرمنی میں پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ سازی کا عمل معطل کر رہا ہے۔
م م / ع ت (ڈی پی اے)