کچھ علاقوں میں جیو کی بندش ، وزیر اطلاعات کا افسوس کا اظہار
24 اپریل 2014سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کچھ علاقوں میں جیو نیوز چینل کی نشریات کی معطّلی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ خیال رہے کہ پیمرا نے وزرارت دفاع کی درخواست پر جیو کی انتظامیہ کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری کر رکھا ہے۔ وزارت دفاع نے آئی ایس آئی کے خلاف توہین آمیز مواد چلانے پر جیو کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی درخواست دے رکھی ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بعض حکومتی وزراء کے بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں جنگ گروپ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رے ہیں۔ تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ میڈیا گروپوں میں تقسیم، ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈے اور ایک میڈیا گروپ کی فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی کو بھی سول اور فوجی تعلقات میں تناؤ سے الگ کر کہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ نواز شریف صاحب ،حامد میر صاحب کو ملنے چلے گئے اور پھر اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ چیف آف آرمی سٹاف آئی ایس آئی کے دفتر چلے گئے۔ اس کشیدگی کی نوعیت کیا ہے اس کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے لیکن یہ کہنا کہ سول حکومت اور فوج کے درمیان حالات بالکل معمول کے ہیں اس کا اظہار جو پچھلے تین چار ہفتے کی فضاء بنی ہے اس سے نہیں ہوتا ‘‘۔
تاہم اسی دوران جمعرات کے روز وزیر اعظم نواز شریف نے بلوچستان اور پنجاب کے وزراء اعلی کے علاوہ وفاقی کابینہ کے ارکان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے ساتھ گوادر بندر گاہ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی ترقی اور تحفط کے لیے فوج اور سیاسی قیادت ایک ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب مل کر پاکستان کو مسائل سے نکالیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے راہنما سینیٹر مشاہدا للہ کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی جو سیاسی صورتحال ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم میچور ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پختگی کی طرف تیزی سے جانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنا احتساب پہلے خود کریں ہر ادارہ چاہے وہ سیاست دان ہو، پارلیمنٹ ہو، میڈیا ہو پارلیمنٹ ہو یا کوئی ایجنسی ہو یا فوج ہو۔ سب اپنی خامیوں پر نظر رکھیں گے تو دوسروں میں کیڑے کم نظر آئیں گے اور ہم تیزی کے ساتھ پختگی کی جانب بڑھیں گے‘‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوجی اور سول قیادت کے درمیان تعلقات کی نوعیت کبھی بھی مثالی نہیں رہی اور اس کے نتیجے میں ملکی تاریخ فوجی مارشلاؤں سے بھری پڑی ہے۔ تاہم پاکستان میں نومبر 2007 ء میں عدلیہ بحالی کی تحریک اور نسبتاً آزاد میڈیا کی وجہ سےماضی کی نسبت اب کوئی ماورائے آئین اقدام اٹھانا آسان نہیں۔