کھلاڑیوں کے بچپن کی تصاویر پر پیگیڈا کیوں سراپا احتجاج؟
26 مئی 2016جون میں مجوزہ چیمپئن شپ میں جرمنی کی جانب سے جو ٹیم شرکت کرے گی، اُس میں غیر ملکی پس منظر رکھنے والے بھی کئی کھلاڑی شامل ہیں۔ اٹلی کی کمپنی فیریرو نے چاکلیٹ کے مختلف پیکٹوں پر قومی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کی بچپن کی تصاویر شائع کرنا شروع کر دیں۔
غیر ملکیوں کی مخالف تنظیم پیگیڈا کی بوڈن زے نامی علاقے کی شاخ نے سوشل میڈیا پر ایسے دو پیکٹوں کی تصاویر شائع کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا کہ ’کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کیا جا رہا‘۔ تب مختلف شہریوں نے اس تبصرے کے نیچے اپنے تاثرات لکھنا شروع کر دیے۔ کسی نے کہا کہ ’اب میں مزید یہ چاکلیٹ نہیں خریدوں گا‘۔ کسی نے کہا کہ ’شاید یہ پیکٹ دہشت گردوں سے خبردار کرنے کا کوئی نیا طریقہ ہیں‘۔
پیگیڈا کا یہ طرزِ عمل اس لیے بھی عجیب ہے کیونکہ یہی کھلاڑی حب الوطنی کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ جب کبھی کوئی چیمپئن شپ ہوتی ہے تو اُس میں اتنی زیادہ تعداد میں جرمن پرچم نظر آتے ہیں کہ جتنے کہیں اور نظر نہیں آتے۔ ٹوئٹر کے ایک صارف نے لکھا کہ ’مجھے تو ابھی سے یورپی چیمپئن شپ کا سوچ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے اور میں مطالبہ کرتا ہوں کہ پیگیڈا کے حامیوں پر اسٹیڈیمز میں داخل ہونے کی پابندی عائد کر دی جانی چاہیے‘۔ یہ ایک قابلِ فہم اعتراض ہے کیونکہ یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ جب کبھی بھی جرمن ٹیم گول کرتی ہے تو کیا پیگیڈا کے حامی خوشی نہیں مناتے؟
سماجی نفسیات کے ماہر رولف فان ڈیک کے خیال میں پیگیڈا کے حامی دراصل تبدیلی سے خائف ہیں اور قدامت پسند حلقوں کے ذہن میں جرمنی کی جو تصویر بنتی ہے، اُس میں سیاہ فام یا ترک نژاد کھلاڑیوں کی تصاویر کی کوئی جگہ نہیں۔
اُدھر پیگیڈا بھی اپنے تبصروں میں کچھ ایسے ہی جواز بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ ایسی تبدیلیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں، جن پر بات کرنا بھی گویا تنقید کی زَد میں آنا ہے۔
اس سے پہلے بھی پیگیڈا اور خاص طور پر انتہائی دائیں بازو کی جماعت این پی ڈی کے حامیوں کی جانب سے قومی ٹیم کے غیر ملکی پس منظر کے حامل کھلاڑیوں کے خلاف نسل پرستانہ تاثرات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔ ان حلقوں کے نزدیک جرمنی کی نمائندگی صرف ایک ایسی ٹیم کر سکتی ہے، جو صرف اور صرف سفید فام اور ’خالص نسل‘ کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہو۔ سچ یہ ہے کہ جرمنوں کی اکثریت ایسا نہیں سوچتی۔