کہکشاں میں پراسرار گردشی شے
30 جنوری 2022ملکی وے کہکشاں میں گردش کرتے ہوئے وقت کے مساوی وقفوں میں طاقت ور روشنی کے جھماکوں کے حامل کسی فلکیاتی جسم کے مشاہدے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ سائنس دانوں کی نگاہ میں یہ ایک نہایت 'پراسرار آبجیکٹ‘ ہے۔
یونیورسٹی کے طالب علم ٹریون اوڈیہرٹی گزشتہ برس اپنے انڈرگریجویٹ تھیسِس پر کام کر رہے تھے، جب پہلی بار انہوں نے اس 'جرم فلکی‘ کا مشاہدہ کیا۔اس وقت وہ ریڈیو موجوں کے ذریعے میپنگ کے عمل میں مصروف تھے۔
کائنات کا ارتقا؟ عظیم دھماکے سے عظیم اور تاریک انجماد تک
ابتدائی دریافت کے بعد تفصیلی تحقیق کام پر مامور ٹیم کے سربراہ اور ماہرفلکیات نتاشا ہرلی والکر کے مطابق، ''اس جسم سے توانائی کے جھماکے ہر 18.18 منٹوں بعد خارج ہوتے ہیں، جیسے گھڑی دیکھ کر ہو رہے ہوں۔‘‘
انٹرنشنل سینٹر فار ریڈیو ایسٹرونومی ریسرچ ICRAR کی جانب سے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا گیا ہے، ''ریڈیو میپنگ پر مصروف ایک ٹیم نے ایک غیر عمومی فلکیاتی شے دریافت کی ہے، جو ایک گھنٹے میں تین بار توانائی کے شدید جھماکے کرتی ہے۔ اس سے قبل ماہرین فلکیات نے کبھی ایسی شے نہیں دیکھی۔‘‘
’’شاید سفید بونا‘‘
آسٹریلیا کے مغربی حصے میں واقع مرشیسن وائڈ فیلڈ ایرے نامی ریڈیو اسکوپ کے ذریعے کم فریکوئنسی کی موجوں کا استعمال کر کے یہ دریافت کی گئی ہے۔ ہرلی والکر کے مطابق مشاہدے کے دوران وقفوں میں یہ آبجیکٹ ظاہر اور غائب ہوتا رہا۔
''ہمارے لیے یہ غیر متوقع تھا۔ ماہرین فلکیات کے لیے تو یہ جیسا کوئی بھوتیا سی شے تھی۔ کیوں کہ آسمان میں اس سے قبل ایسا کبھی کچھ نہیں ملا۔‘‘
ٹیم کا کہنا ہے کہ ممکن طور پر ایک یہ وائٹ ڈوارف یا سفید بونا ستارہ ہے۔ ایسے ستارے جو جل بجھنے کے بعد اپنے ہی مرکز میں آن گرتے ہیں، انہیں وائٹ ڈوارف کہا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ فلکیاتی آبجیکٹ زمین سے چار ہزار نوری سالوں کے فاصلے پر ہے اور انتہائی طاقت ور مقناطیسی میدان کا حامل ہے۔ اس خبر نے سائٹنفیک کمیونٹی میں دلچسپی کی ایک نئی لہر پیدا کی ہے۔
خلائی مخلوق کا اشارہ تو نہیں؟
ماہرین کے مطابق دریافت کیے جانے والے آبجیکٹ کو سمجھنے کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ہرلی والکر کے مطابق، ''اگر آپ تمام تخمینہ لگائیں، تو آپ کو لگے گا کہ اس آبجیکٹ کی اتنی طاقت نہیں ہونا چاہیے کہ ہر بیس منٹ میں اتنی طاقت ور ریڈیو موجیں خارج کرے۔ یہ ممکن نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
ٹیم لیڈر کے مطابق ابتدا میں تو اس بات تک پر غور کیا گیا کہ کہیں یہ کسی خلائی مخلوق کی جانب سے کوئی اشارہ تو نہیں ہے۔ تاہم بعد میں چوں کہ اس سنگل کو مختلف فریکوئنسیز کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا اس سے یہ طے ہوا کہ یہ ایک قدرتی عمل کا حصہ ہے۔