کیا ایران جنرل سلیمانی کا قتل سہ جائے گا؟
17 جنوری 2020امریکا کے پاس اگر زبردست فوجی طاقت ہے، اسرائیل اور سعودی عرب اس کے ساتھ ہیں تو ایران کے پاس بھی جواب دینے کے کئی آپشن ہیں۔
تہران کے پاس خطے میں سب سے بڑی قوت حزب اللہ ہے۔ لبنان کی یہ مسلح تنطیم سن بیاسی میں وجود میں آئی اور ملک کے جنوبی علاقے کی اہم سیاسی قوت ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مسلح جھڑپوں کی وجہ سے اسرائیل اُسے خطے میں بڑا دردِ سر قرار دیتا ہے۔
عراق اور شام کے اندر برسوں کی مسلسل لڑائی میں ملیشیا گروہوں کا ایک وسیع جال ہے۔ ان گروہوں کی پشت پناہی بیرونی طاقتیں کرتی ہیں، جن میں مغربی ممالک سمیت سعودی عرب، قطر اور ترکی شامل ہیں۔ ایران کا بھی عراق اور شام میں بڑا اثر ہے اور وہ کئی شیعہ تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔
یمن میں سعودی مداخلت کے خلاف برسرپیکار حوثی باغی بھی مبینہ طور ایران کے اتحادی ہیں۔
خطے میں ایران کے اس اثر کو بڑھانے میں قُدس فورس کے کمانڈر قاسم سُلیمانی کا کلیدی کردار تھا ۔ اسی لیے عراق میں امریکی ڈرون حملے میں ان کی ہلاکت تہران کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
ابھی تک ایران نے اس نقصان کا جواب دینے میں قدرے ضبط سے کام لیا ہے۔ واشنگٹن کے مطابق عراق میں امریکی اڈوں پر ایران کے جوابی میزائیل حملوں میں اس کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔
بظاہر لگتا ہے کہ ایران جلد بازی میں کوئی کام نہیں کرنا چاہے گا کیونکہ اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ جس کی ایک مثال ایرانی فوج کے ہاتھوں یوکرائنی مسافر جہاز کا سانحہ ہے۔
مبصرین کے خیال میں حالیہ دو ہفتوں کے واقعات کے بعد دونوں ملک کوئی نیا جنگی تصادم شروع کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔
لیکن آخر میں شاید یہ فیصلہ دو شخصیات ہی کریں گی کہ وہ باہمی کشیدگی کس حد تک لے جائیں: امریکا میں صدر ٹرمپ اور ایران میں رہبرِ اعلٰی آیت اللہ علی خامنہ ای۔