کیا بھارت میں عدلیہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے؟
17 مارچ 2020ماہرین قانون، سیاسی رہنما اور سول سوسائٹی جسٹس گوگوئی کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوشی کے صرف چار ماہ کے اندر پارلیمان کے ایوان بالا کا ممبر بنائے جانے کو بھارت میں عدلیہ کی آزادی کی موت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ مودی حکومت کے اس فیصلے پر مختلف حلقوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے جسٹس گوگوئی کو ان کی 'خدمات‘ کے عوض حکومت کی جانب سے 'انعام‘ قرار دیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے جسٹس گوگوئی کے بعض فیصلوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔ اپنی سبکدوشی سے چند دن قبل جسٹس گوگوئی نے بابری مسجد تنازعے میں ہندووں کے حق میں جو فیصلہ سنایا اس پر مسلم جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی نے بھی حیرت کا اظہار کیا تھا۔ شہریوں کا قومی رجسٹر (این آر سی)، رفائیل طیارہ ڈیل، سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما کو برطرف کیے جانے جیسے کئی اہم کیسیز کے فیصلے جسٹس گوگوئی کی صدارت میں ہی ہوئے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مقدمات میں موجودہ مودی حکومت بھی ایک اہم فریق تھی۔
سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکور نے جسٹس گوگوئی کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیے جانے کے مودی حکومت کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”جسٹس گوگوئی کو اعزاز بخشنے کی بات کچھ عرصے سے گردش کر رہی تھی، اس لحاظ سے ان کی نامزدگی حیرت کی بات نہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہو گیا۔ اس سے عدلیہ کی آزادی، شفافیت، غیر جانبداری اور دیانت داری پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔ کیا انصاف کا آخری قلعہ بھی منہدم ہو گیا ہے؟"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جسٹس لوکور، جسٹس گوگوئی کے ساتھ سپریم کورٹ کے ان چار سینئر ججوں میں شامل تھے، جنہوں نے بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک پریس کانفرنس کر کے اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے رویے پر سوالات اٹھائے تھے۔ عوام خاص طور پر جسٹس گوگوئی کی جرات سے کافی متاثر ہوئے تھے کیوں کہ وہ اگلے چیف جسٹس بننے والے تھے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ”اب یہ صرف ان (رنجن گوگوئی) کے ذاتی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے تمام ساتھی ججوں کی دیانت داری اور غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔" سینئر وکیل گوتم بھاٹیا نے اس قدم کو آزاد عدلیہ کی موت قرار دیتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ”معاملات کے واضح ہونے میں کچھ وقت ضرور لگا لیکن وہ کھل کر سامنے آ گیا، ان سب کے بعد 'آزاد عدلیہ‘ کی موت ہو گئی۔"سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے چیئرمین دشینت دَوے نے کہا، ”یہ فیصلہ انتہائی قبیح ہے۔ یہ واضح طور پر انہیں حکومت کی طرف سے دیا گیا انعام ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو پوری طرح تباہ کر دیا گیا ہے۔"
ممبر پارلیمان اسدالدین اویسی نے اپنی ٹویٹ میں رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کا رکن بنائے جانے کا نوٹیفکیشن شیئر کرتے ہوئے براہ راست سوال پوچھا کہ ”کیا یہ معاوضہ ہے؟کوئی شخص آخر کس طرح ججوں کی آزادی پر بھروسہ کر سکتا ہے۔" اسدالدین اویسی ایودھیا معاملے میں سپریم کور ٹ کے فیصلے پر پہلے ہی سوال اٹھا چکے ہیں۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے ٹویٹ کی،''عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔"
سماجی کارکن پرشانت بھوشن نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے، ”جنسی استحصال کا الزام لگانے والے ملازم کو ڈرانے کے لیے حکومت کی مدد لینے، ایودھیا اور رفائیل کیس حکومت کو تحفے میں پیش کرنے کے بعد گوگوئی راجیہ سبھا سیٹ سے نوازے گئے۔"
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی ایک سابق جونیئر اسسٹنٹ نے بائیس ججوں کو خط لکھ کر سابق چیف جسٹس گوگوئی پر جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ 35 سالہ خاتون کا الزام تھا کہ چیف جسٹس گوگوئی نے اکتوبر 2018 میں اس کا جنسی استحصال کیا اور جب اس نے اس قابل اعتراض حرکت کی مخالفت کی تو اسے، اس کے شوہر اور خاندان کو پریشان کیا گیا۔ ایک انکوائری کمیٹی نے تاہم جسٹس گوگوئی کو کلین چٹ دے دی تھی۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ حکمراں بی جے پی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر قانون ارون جیٹلی نے 2012 میں اس طرح کی نامزدگیوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سبکدوشی کے بعد عہدوں پر فائز کیے جانے کی خواہش ملک کی عدلیہ کی غیر جانبداری کو بری طرح متاثر کر رہی ہے اور اسے ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔