کیا بھارت میں ہم جنس پرستی پر پابندی ختم ہو جائے گی؟
13 جولائی 2018بھارتی سپریم کورٹ میں آج کل ایک مقدمے کی سماعت کر رہی ہے جس میں انڈین پینل کورٹ کے سیکشن 377 کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس دفعہ کی رُو سے ہم جنس پرستی جرم قرار پاتی ہے۔ سن 1860 میں جب اس خطے میں برطانوی راج قائم تھا، ہم جنس پرستی پر دس سال قید کی سزا مقرر کی گئی تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران دو روز تک دلائل سننے کے بعد بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا کا کہنا تھا کہ ہم جنس پرستی پر سے پابندی جلد ختم کیے جانے کا امکان ہے۔
مشرا نے کہا، ’’ہم ایسا فیصلہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے مطابق اگر دو بالغ افراد ’غیر فطری‘ جسمانی تعلق بھی رکھتے ہوں تب بھی ان پر کسی جرم میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔‘‘
جسٹس جے چندرا چد جو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کا حصہ ہیں،کا کہنا تھا کہ وہ ایسی صورتحال نہیں چاہتے کہ دو ہم جنس پرست افراد کہیں چہل قدمی کر رہے ہوں اور پولیس انہیں پینل کورٹ کی دفعہ 377 کے تحت گرفتار کر لے۔
یہ عدالتی تبصرہ ایک سرکاری وکیل کے اُس بیان کے بعد سامنے آیا، جس میں اُس نے کہا تھا کہ دفعہ 377 کی صحت کا فیصلہ عدالت کی ’دانش‘ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سرکاری وکیل نے تاہم یہ تجویز بھی دی کہ کورٹ کو ہم جنس پرست افراد کی شادی، بچے گود لینے اور سول حقوق کے معاملات کو نہیں چھیڑنا چاہیے۔
ادھر انڈیا میں ایڈز سے بچاؤ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ناز فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انجلی گوپالن نے اس عدالتی تبصرے پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا، ’’عدالت کے گزشتہ دو روز کے بیانات اور اُن کے اس کیس کو جلد ختم کرنے کے فیصلے سے ہم پر امید ہیں۔‘‘
دفعہ 377 کے خلاف پٹیشن دائر کرنے والے بالا چندرن رامیہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم حیران تھے، جب چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت کو آگے بڑھایا۔‘‘
بھارت میں مسلمان ایکٹویسٹ حضرات نے سن 2009 میں ہم جنس پرستی کو مجرمانہ فعل قرار نہ دینے کے ایک فیصلے پر احتجاج کیا تھا۔ اس فیصلے کو سن 2013 میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے کئی ممالک ہم جنس پرست افراد کے حوالے سے لبرل قوانین روشناس کرا رہے ہیں، بھارت بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رکھنا چاہتا اور ایک جدید جمہوری ملک کے طور پر خود کو سامنے لانا چاہتا ہے۔