کیا بھارت پاکستانی امداد قبول کر لے گا؟
29 اپریل 2021ایسا لگتا ہے کہ بھارت کو اس وقت جس پیمانے پر کورونا وائرس کے شدید بحران کا سامنا ہے اس کے مد نظر اسے اب نہ تو بیرونی ممالک سے امداد قبول کرنے میں کوئی عار ہے اور نہ ہی چین سے ضروری اشیا خریدنے پر اب کوئی اعتراض باقی رہا ہے۔ لیکن پاکستانی امداد کی پیشکش پر اب بھی اس نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ
سن دو ہزار چار میں منموہن سنگھ کی پہلی حکومت نے کسی بھی آفت یا مصیبت کے وقت بیرونی امداد تسلیم نہ کرنے اور حالات سے خود نمٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ اسی دوران جب جنوبی بھارت میں سونامی نے زبردست تباہی مچائي تو دنیا کے کئی ملکوں نے امداد کی پیشکش کی تاہم بھارت نے منع کر دیا تھا۔ بھارت اس سے پہلے تک زلزلے سے ہونے والی تباہ کاریوں، طوفانوں اور سیلابوں جیسی قدرتی آفات کے موقع پر بیرونی امدادا لیتا رہا تھا۔
یہ ثابت کرنے کے لیے بھارت بھی دنیا کی ایک بڑي معیشت ہے اور اس کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے اور آفات کے وقت وہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہے، بھارت نے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ عشرے کے دوران متعدد قدرتی آفات کے باوجود بیرونی امداد نہیں تسلیم کی۔
لیکن اب تقریبا 16 برس کے بعد مودی حکومت نے کورونا کے شدید بحران کے وقت جس طرح سے بیرونی امداد کی اپیل کی اور بیرونی ممالک سے عطیات، چندہ اور دیگر امداد حاصل کر رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ نظریاتی طور اس نے یہ پالیسی ختم کر دی ہے اور اب حکومت تمام طرح کی بیرونی امداد کا کھلے دل سے خیر مقدم کرنے کے لیے تیار ہے۔
چین سے بھی سودے بازی کی اجازت
متنازعہ خطے لداخ میں ایل اے سی پر بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد بھارت نے چین سے بھی تجارتی روابط تقریباً منقطع کر لیے تھے اور دونوں کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ رہے ہیں۔ تاہم اب جب اسے آکسیجن، ضروری ادویات اور طبی ساز و سامان کی شدید قلت کا سامنا ہے تو وہاں سے بھی اسے ایسی اشیا کی خرید و فروخت پر بھی کوئی اعتراض نہیں رہا ہے۔ یہ بھی اس کی پالیسی میں ایک بڑا شفٹ ہے۔
حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاستی حکومتیں طبی ساز و سامان یا اس طرح کی دیگر اشیا اگر کسی بھی بیرونی ملک سے خریدنا چاہیں تو وہ آزاد ہیں اور مرکزی حکومت اس میں کوئي رخنہ اندازی نہیں کرے گی۔
پاکستان کی امداد پر کوئی فیصلہ نہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان نے اس مہلک وبا کے دور میں بھارت کو جس مدد کی پیشکش کی ہے اسے مودی حکومت تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟۔ ذرائع کے مطابق ہندو قوم پرست بی جی پی کی حکومت اب بھی اس بارے میں تذبذب میں مبتلا ہے اور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ تاہم بعض حکومتی ذرائع کے مطابق مودی کی حکومت شاید پاکستانی امداد تسلیم نہ کر پا ئے۔
بھارت میں مبصرین کے ایک طبقے کا کہنا ہے اس طرح کی بحرانی صورت حال میں سب سے بہترین امداد ہمسائیوں کی ہوتی ہے اس لیے پاکستان کی مدد کو کھلے دل سے قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی صحافیوں کی انجمن ایڈیٹرز گلڈ آف انڈيا کے سکریٹری سنجے کپور کہتے ہیں کہ اس مصیبت کے دور میں، "اگر پڑوسی مدد نہیں کرے گا تو کون کرےگا؟ "
ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا کہ سبھی کو اس بات کا احساس ہے کہ آپ کو مدد کی ضرورت ہے، تو، "اس میں شرم کی کیا بات ہے؟ اس میں ایک انا آڑے آ رہی ہے جو نہیں آنی چاہیے۔ اس مدد کے قبول کرنے سے بھارت پاکستان کے تعلقات میں جو بہتری آ رہی ہے اس میں مزید تیزی آئےگی۔"
تاہم سنجے کپور اب بھی پر امید ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ تاہم ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اس حکومت کی مدد نہ لینے کی کچھ مجبوریاں بھی ہیں۔
ان کے مطابق ، "اندرونی سیاست پاکستان کے خلاف لڑائی اور نفرت پر مبنی ہے۔ ان کی سیاست تقسیم ہند کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والی رنجشوں پر منحصر ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کا یہ موقف کسی بھی حال میں کمزور پڑ جائے۔"
بھارتی ریاست پنجاب کے وزير اعلی امریندر سنگھ نے بھی پاکستانی پیشکش کو یہ کہہ کر قبول کرنے کی حمایت کی ہے کہ خدمت خلق کی معروف پاکستانی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کو بہترین تجربہ حاصل ہے اور ان کی آمد سے ایمبولنسز اور آکسیجن کی شدید قلت کے بحران پر قابو پانے میں کافی مدد ملے گی۔
چند روز قبل پڑوسی ملک پاکستان نے اس مشکل وقت میں بھارت کو وینٹی لیٹر، آکسیجن سپلائی کٹس، ڈیجیٹل ایکس رے مشینیں، پی پی ایز جیسی دیگر اشیاء فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی۔ اس سے پہلے ایدھی فاؤنڈیشن نے بھی بھارت کو ہر ممکن مدد کی پیش کش کی تھی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اس نے بھارتی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر امدادی ساز و سامان مہیا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ پاکستانی وزير خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان انسانیت کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے اور اسی کے تحت بھارت کو پیش کش کی گئی ہے اور اب بھارت کے جواب کا انتظار ہے۔ تاہم بھارت نے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔