کیا جرمنی انگولا کو آبدوزیں بیچے گا؟
4 فروری 2020عموماً ان افریقی ممالک کے کسی دورے پر میرکل کے ایجنڈے کا مرکزی موضوع مہاجرت ہوا کرتا ہے تاہم اس بار چند دیگر موضوعات کو بھی اہمیت حاصل رہے گی۔ جرمنی اور جنوبی افریقہ کے باہمی تعلقات کچھ شادی شدہ جوڑوں جیسے ہیں: پہلے زبردست پیار محبت ، پھر دونوں اپنے اپنے راستے پر اور آخر میں پھر ایک بار ایک دوسرے کے ساتھ ۔
’ٹریول ڈپلومیسی‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی اور جنوبی افریقہ فی الحال دوسرے موسم بہار سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
اکتوبر 2018ء میں جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا جرمنی آئے تھے۔ اس کے جواب میں وفاقی جرمن صدر نے ایک ماہ بعد ہی جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تھا۔ اس کے مقابلے میں وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل خاصی تاخیر سے جنوبی افریقہ کا دورہ کر رہی ہیں۔ لیکن ان کا یہ دورہ اس بات کا اعتراف ہے کہ جنوبی افریقہ اور جرمنی کے تعلقات ایک بار پھر قربت اختیار کر گئے ہیں۔ یہ کہنا ہے میلانی میولر کا، جو برلن میں قائم تھنک ٹینک 'ایس ڈبلیو پی‘ سے منسلکہین اور جنوبی افریقی امور کی ماہر ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ ریاست کے سربراہ رامافوسا ہیں۔ 2018ء کے شروع میں انہوں نے اپنے پیشرو اور بدنام ہو چکے جیکب زوما کو اپنے عہدے سے علیحدہ ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ اپنے عہد صدارت کے دوران تیزی سے آمریت کی طرف بڑھ رہے تھے اور بنیادی طور پر بدعنوانی ان کی بری شہرت کا سبب بنی تھی۔ خارجہ پالیسی کے معاملے میں زوما نے نام نہاد 'برکس‘ ممالک پر انحصار کیا تھا۔ جنوبی افریقہ کے علاوہ 'برکس‘ ممالک میں برازیل، چین، روس اور بھارت بھی شامل ہیں۔
دوسری طرف رامافوسا نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے خارجہ پالیسی پر توجہ دی اور اپنے پرانے دوستوں کو ایک بار پھر آمادہ کر لیا۔ ایس ڈبلیو پی کی ماہر میلانی میولر کے مطابق، ''جنوبی افریقہ کی ریاست اور اس کے موجودہ صدر کو یہ ادراک ہو چکا ہے کہ جیکب زوما کی صدارت میں جنوبی افریقہ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا تھا۔‘‘
عالمی اسٹیج پر واپسی
اس کے نتائج نہ صرف خود جنوبی افریقہ پر بلکہ جرمنی کے ساتھ اس کے تعلقات پر بھی مرتب ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں جنوبی افریقہ کے انسٹیٹیوٹ برائے سکیورٹی اسٹڈیز کی اوٹیلیا مونگنیڈیز کا کہنا ہے، ''تعلقات کبھی بھی یکطرفہ نہیں ہوتے، بلکہ کچھ دینے اور کچھ لینے پر مبنی ہوتے ہیں۔‘‘ جرمنی کے لیے زوما عہد سے پہلے جنوبی افریقہ براعظم افریقہ کا سب سے اہم سیاسی پارٹنر ملک تھا۔ خارجہ پالیسی کے معاملے میں دونوں ممالک عالمی امور پر یکساں سوچ کے مالک تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے قیام کی حمایت کی تھی۔
بجلی کا بحران اور دیوالیہ پن: جرمن معیشت پر اثرات
جنوبی افریقہ شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق اس سال معیشت میں صرف 0.8 فیصد شرح نمو کی توقع ہے۔ بے روزگاری کی شرح 30 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ مونگنیڈیز کا کہنا ہے، ''بے روزگاری عدم مساوات کو بڑھاتی ہے، جو اب بھی جنوبی افریقہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ لہٰذا جنوبی افریقہ ایسی شراکت داری کا خواہاں ہے، جس سے معیشت کو ترقی مل سکے۔ جرمنی کے تناظر میں اس کا مطلب ہے، زیادہ سرمایہ کاری۔‘‘
انگولا کے لیے جرمن آبدوزیں؟
ایس ڈبلیو پی کی ماہر میولر کہتی ہیں، ''2017ء سے انگولا میں ایک نئے رہنما باگ ڈور سنبھال چکے ہیں اور یہ شخصیت اب تک مستقل طور پر کام کر رہی ہے۔ جب سے نئے صدر خوآؤ لورینسو نے اقتدار سنبھالا ہے، جرمنی کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگولا میں نئے صدر نے بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں۔ انگولا میں لورینسو کے پیش رو اور اُن کے اہل خانہ سمیت سابق صدر کی بیٹی کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے اور عدلیہ نے اُن کی بیٹی کے خلاف دھوکہ دہی کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
جرمنی اور انگولا کے قریبی تعاون کی علامات پہلے ہی سے موجود ہیں۔ انگولا طویل عرصے سے قریبی فوجی تعاون کا خواہاں ہے۔ 2017ء سے انگولا میں جرمن ملٹری اتاشی بھی تعینات ہیں۔ لوآنڈا حکومت جرمن آبدوزیں خریدنا چاہتی ہے۔ وفاقی جرمن حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اس دورے کے دوران امکاناً اس بارے میں چانسلر میرکل کی انگولا کے حکام کے ساتھ بات چیت ہو گی تاہم برلن وسائل سے مالا مال انگولا سے مضبوط معاشی تعلقات میں دلچسپی رکھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں لیکن انگولا میں جرمن سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین مزید گہرے تعلقات ہی اس صورتحال میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
ڈانیئل پَیلس (ک م / م م)