1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا جیو کے فوج سے معاملات طے پا گئے؟

19 اپریل 2018

پاکستانی نیوز چینل جیو کو فوج کے ساتھ معاملات طے پاجانے کے بعد کیبل نیٹ ورک کے ذریعے ایک بار پھر اپنی نشریات دکھانے کی اجازت مل گئی ہے۔روئٹرز کے مطابق فوج کا مطالبہ تھا کہ  چینل اپنی سیاسی کوریج میں تبدیلی پیدا کرے۔

https://p.dw.com/p/2wKvR
Protest gegen Geo TV in Lahore Pakistan 20.04.2014
تصویر: picture-alliance/Rana Sajid Hussain/Pacific Press

خبر رساں ادارے رائٹرز نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کو معاملات طے پانے کے حوالے سے معلومات رکھنے والے دو افراد نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ مارچ کے آواخر میں جیو نیوز کو نا اہل قرار دیے گیے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حق میں کوریج کرنے اور ملکی اعلیٰ عدالت سمیت ’اسٹیبلیشمنٹ‘ پر تنقید کی وجہ سے فوج کی جانب سے دباو تھا کہ اس کی نشریات کو بند کر دیا جائے۔ 

روئٹرز کے مطابق گزشتہ ہفتے جیو کی مینیجمنٹ کی جانب سے اسٹاف کو جو ہدایات موصول ہوئیں، ان میں وہ ادارتی نکات شامل تھے جن کے تحت اب ادارے میں کام کیا جائے گا اور جو نشریات کی بحالی کی بحالی کے لیے نافذ کرنا بھی ضروری تھے۔

ان میں ’اسٹیبلیشمنٹ‘ یعنی فوج کی منفی تصویر کشی اور ملک کی اعلیٰ عدالت پر سیاست میں مداخلت جیسے الزامات عائد کرنے پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔ اس کے علاوہ نواز شریف پر چلنے والےکرپشن کے مقدمات کی بھی ایسی کوئی رپورٹ نہیں نشر کی جائے گی جو اس بیانیے کو تقویت دے کہ نواز شریف یا ان کی اولاد بے قصور ہیں۔ 

Pakistan TV Channel Geo News Ausschaltung
تصویر: picture alliance/Rana Sajid Hussain/Pacific Press

روئٹرز کے اس ڈیل کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے والے دونوں افراد کے مطابق کمپنی نے ان مطالبات کو  بادل نخواستہ منظور کر لیا ہے تاہم ابھی کوئی حتمی معاہدہ نہیں طے پایا ہے اور صورتحال میں ابھی بھی کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔ تاہم ایک ذریعے کے مطابق جیو کی نشریات کی بحالی کے پیچھے چینل کی جانب سے مطالبات کی منظوری ہی اصل وجہ ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق اس معاملے میں فوج کی شمولیت کے سوال پر جیو ٹی وی نیٹ ورک کے صدر عمران اسلم نے اپنا جواب دینے سے معذرت کر لی تاہم جیو کے ترجمان کے جاری بیان کے مطابق ’ جیو ہمیشہ کہانی کے دونوں رخ پیش کرنے  اور آزاد ادارتی پالیسی  پر کاربند رہنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اگر ہمیں اپنی اس آزادی سے دست بردار ہونا پڑا تو اس کے بجائے ہم چینل کو خود ہی بند کر دیں گے۔‘   

جیو کی نشریات کیا فوج کے کہنے پر بند کی گئیں؟

ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات، معاشرہ اور صحافتی برادری تقسیم

ملک کے 80 فیصد علاقے میں جیو کی نشریات کی معطلی اور ملکی میڈیا پر بڑھتی سینسر شپ پر اکثر حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف اپنے ٹوئٹ میں کہتے ہیں کہ اکیلا جنگجو مارا گیا؟ جیو نیوز فوج کے ساتھ بات چیت کے بعد واپس آن ائیر ہو گیا۔   

ماروی سرمد اپنی ٹوئٹ میں ایک سوال اٹھاتے ہوئے لکھتی ہیں کہ کیا جیو کی پاکستان مسلم لیگ نواز کے حق میں ، پاکستان تحریک انصاف  اور عدالت کے خلاف کمنٹس کے حوالے سے ہونے والی ڈیل کا اطلاق ٹوئٹس پر بھی ہے؟ اگر نہیں تو عمر چیمہ سے اپنی ٹوئٹس ہٹانے کے لیے کیوں کہا گیا؟  اگر نہیں تو میرا یقین کریں کہ جنگ اور جیو کے یہ چند لوگ اسٹیبلیشمنٹ کو اپنی ٹوئٹس کے ذریعے بھون کر رکھ دیں گے۔

ایک سماجی ایکٹیویسٹ اپنی ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ آخر کار جیو واپس آن ائیر ہو گیا ہے۔ یہ وقت ہے خود کو یاد دہانی کروانے کا کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں میڈیا آزاد نہیں ہے،  

ڈان نیوز کے ایک  سینئیر ایڈیٹر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کرتے ہیں،

ع ف / ع ق (رائٹرز)