تاہم عمران خان کو حکومت سے کیسے نکالا جائے اور طریقہ کار کیا اپنایا جائے گا، وہ سامنے نہیں آیا تھا۔ کہا گیا (اور بعدازاں درست ثابت ہوا) کہ گزشتہ سال نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پراختلافات کی وجہ سے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ نہ صرف یہ کہ ایک صفحہ پر نہیں رہے تھے بلکہ مخالف سمتوں کو رخ کر گئے تھے۔
عمران خان صورت حال بھانپ گئے اور کہنے لگے کہ صرف 'میں ہی آپشن ہوں‘ اگر ہٹایا گیا تو زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔ پھر سات مارچ سے 10 اپریل تک وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے منظور ہونے تک اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر واقع طاقت کے ایوانوں میں جو کچھ ہوا، وہ محلاتی سازشوں اور طاقت کے بے دریغ استعمال سے بھری ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ کر گیا۔
عمران خان نے اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے سارے عمل میں شدید مزاحمت دکھائی، جس کے نتیجے میں ان کو اپنے حمایتیوں کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی، جس کا ثبوت اتوار کے روز ملک کے طول وعرض میں ہونے والے جوش و خروش سے بھرے 'رضا کارانہ مظاہرے‘ تھے۔ دنیا کے اہم دارالحکومتوں اور شہروں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ان سے اظہار یکجہتی اس کے علاوہ ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ مشکل حالات، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجود ان کے اس بیانیے کو تقویت مل رہی ہے کہ نہ صرف انہوں نے حالات میں بہتری کی کوشش کی بلکہ 74 سالہ ملکی سیاسی تاریخ میں اپنا شمار ان رہنماؤں میں کرایا، جو آزادی اور خودمختاری میں ہی پاکستان کا مستقبل روشن سمجھتے تھے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جان کی بازی بھی لگا گئے۔
کیا عمران خان اپنا انجام ذوالفقار علی بھٹو جیسا دیکھ رہے ہیں؟
یقیناً اس تاثر میں بہت گہرائی ہے کہ عمران خان نے اپنے لیے وہی راستہ چن لیا ہے، جس پر 1977ء میں بھٹو چلے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کا ماننا تھا کہ پاکستان چین کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے ہوئے امریکہ اور روس (تب سوویت یونین) کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات رکھ سکتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے خلاف کی جانے والی سازش میں سفید ہاتھی کا ذکر کیا تھا، جو نیوکلیئر پروگرام جاری رکھنے کی پاداش میں اسے بھیانک نتائج کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ عمران خان نے سفید ہاتھی کہنے کی بجائے براہ راست امریکہ کا نام لیا ہے اور اپنے سیاسی مخالفوں کو آج کے میر جعفر اور میر صادق کہہ کر معاملہ عوام میں لے جانے کا اعلان کیا ہے۔
قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ ظاہر کر رہا ہے کہ عمران خان مکمل طور پر غیر روایتی سیاسی فیصلے کر رہے ہیں، جو ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے محاورے کے مصداق ہے۔ ایسے فیصلوں کی بنیاد، جہاں ایک طرف ان کا زندگی گزارنے کا ذاتی نقطہ نظر ہے تو وہیں اس انداز سیاست کے ملنے والی عوامی پذیرائی ہے۔
یہ سب وہ عوامل ہیں جو عمران خان کو روز بروز خطرناک سے خطرناک بنانے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ عمران خان کی ایک انتہائی دوراندیشانہ چال یہ بھی لگتی ہے کہ انہوں نے ابھی تک حکومت سے بے دخلی پر کسی کا براہ راست نام نہیں لیا، عدالتوں کو چمک کہا نہ ہی 'مِڈنائٹ جیکالز‘ کا ذکر کیا بلکہ معاملے کو لوگوں کی فہم پر چھوڑ کر اور انہیں کا فیصلہ حاصل کرنے کے لیے سارا زور جلد از جلد عام انتخابات کے لیے لگانا شروع کر دیا ہے۔
عمران خان کا اعتماد اور عزم کہ وہ تضادات کا شکار موجودہ اتحادی حکومت کی جماعتوں کو آئندہ انتخابات میں بھرپور اور متحرک عوامی حمایت کے ذریعے تنِ تنہا شکست دیں گے، انہیں مخالفین کے لیے خطرناک بناتا ہے۔
یہ حقیقت کہ طاقتور ادارے میں عوام کو پذیرائی حاصل ہے اور یہ کہ عدالتیں بھی سڑکوں پر موجود عوامی رائے کو تادیر قانونی موشگافیوں کے سہارے نظر انداز نہیں کر سکتیں، بھی عمران خان کو سیاسی مخالفین اور اسٹیٹس کو کے حامیوں کی نظر میں خطرناک ترین بنا دیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا پاکستان مہم جو اور خطرناک سیاسی رہنماؤں کی قیادت کی قیمت ادا کرسکتا ہے؟ تو اس کا ایک مہم جوآنہ جواب یہی سمجھ میں آتا ہے کہ سات دہائیوں میں پاکستان صرف انہیں ادوار میں آئینی، ادارہ جاتی اور سیاسی آگاہی کے میدانوں میں آگے بڑھ سکا، جب اس کو 'مہم جو اور خطرناک قیادت‘ میسر آئی۔
جبکہ انہی محاذوں پر ترقی کا پہیہ رکا رہا، جب اسٹیٹس کے حامی نظریات والی قیادت کو سیاسی فیصلے کرنے کا 'کنٹرولڈ مینڈیٹ‘ دیا گیا۔ سیاسی فیصلوں میں عوام شامل ہوں تو وہ اس کی ملکیت کا بار بھی اٹھاتے ہیں وگرنہ ہماری تاریخ بند کمروں میں ہونے والے ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے، جس کی آج کوئی ادارہ یا ایسے اداروں کی قیادت کرنے والے بھی ملکیت لینے کو تیار نہیں۔
عمران خان کا خطرناک ہونا خطرناک ہے۔ اگر اُسے خطرناک عوامی حمایت کی مزید پذیرائی ملی تو یہ خطرناک ترین ہو گا، پاکستان کے لیے نہیں بلکہ سات دہائیوں سے ملک میں جاری 'اسٹیٹس کو‘ کے لیے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔