کیا مستقبل میں مشینوں کو بھی جیل جانا پڑے گا؟
21 اپریل 2019آج کل کی جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترقی یافتہ دنیا میں یہ بات یقینی ہے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت یعنی artificial intelligence یا AI کا استعمال ایسے ہی ہو گا، جیسے عام گھروں میں بجلی یا ٹیلی فون استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ مصنوعی ذہانت خود بخود چلنے والی یا سیلف ڈرائیونگ کاروں کی صورت میں بھی ہو گی، پیچیدہ طبی آپریشن کرنے والے روبوٹس کی شکل میں بھی اور ایسے صنعتی مشینوں کی صورت میں بھی جو اپنے طور پر سوچنے کی اہل بھی ہوں گی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایسی خود کار مشینیں کوئی بہت بڑی مہلک غلطی کریں گی، تو ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ کیا مستقبل میں ایسی AI مشینوں کو سزا کے طور پر جیلوں میں بھی بھیجا جا سکے گا؟
اب تک دنیا کے سبھی انسانی معاشروں میں فوجداری قانون یہی ہے کہ جو کوئی بھی کسی انسان کو زخمی کر دینے یا اس کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے، اسے اپنے کیے کی تلافی کرنا اور سزا بھی کاٹنا پڑتی ہے۔ تمام انسانی معاشروں میں قانون سازی کا بنیادی اصول یہی ہے۔ لیکن جس طرح عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کا شعبہ ترقی کر رہا ہے، اس نے مختلف ممالک کے فوجداری قوانین کے ماہرین کے لیے ایک نیا سوال بھی کھڑا کر دیا ہے۔
یہ سوال سائنس فکشن کا حصہ نہیں
قصور وار اگر انسان ہو، تو اسے سزا دی جاتی ہے۔ آئندہ اگر خود کار مشینیں بڑے بڑے حادثات یا انسانوں کی ہلاکت کی وجہ بنیں، تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ ہو سکتا ہے کہ سننے والوں کو یہ بھی کسی سائنس فکشن کا حصہ ہی لگے، لیکن کئی معاشروں میں صنعتی شعبے، انشورنس کمپنیاں، قانون سازی پر تحقیق کرنے والے ماہرین اور سیاستدان ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
جرمنی کی عالمی سطح پر فعال بہت بڑی انشورنس کمپنی آلیانس کے املاک کی انشورنس کے شعبے کے سربراہ یوآخم میولر کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں صنعتی روبوٹس اور سیلف ڈرائیونگ کاروں سمیت مصنوعی ذہانت اتنی ترقی کر جائے گی کہ اسے معاشرتی سطح پر ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر قبول کر لیا جائے گا۔
یوآخم میولر کے مطابق، ’’سوچنے والی مشینیں، خود کار روبوٹ یا اور جو کچھ بھی آئندہ برسوں میں دیکھنے اور استعمال میں آئے گا، ان سب کے پیچھے ایک بات کی وضاحت ہمیشہ ممکن رہے گی کہ حتمی ذمے داری کس کی ہے۔‘‘
مشینوں کا تو نہ شعور نہ ضمیر
جرائم کی سزا دینے سے متعلق قانون کسی بھی ملک کا ہو، اس کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ جرم کے مرتکب فرد کی بنیادی سوچ کیا تھی؟
لیکن خود کار مشینیں چاہے کتنی ہی ذہین کیوں نہ ہوں، ان کا اپنا نہ تو کوئی شعور ہوتا ہے اور نہ ہی ضمیر۔ اس لیے جس فوجداری قانون کا اطلاق کسی انسان پر ہو سکتا ہے، اس کا اطلاق کسی مشین پر ہو ہی نہیں سکتا۔
جرمن شہر ہینوور کی یونیورسٹی کی پینل کوڈ چیئر پر فائز ماہر قانون سوزانے بَیک کہتی ہیں، ’’دیوانی قانون کے اب تک کے معمول کے مطابق کسی غلطی یا جرم کے ارتکاب کی صورت میں ذمے دار وہ انسان ہوتا ہے، جو کسی مشین کو چلاتا ہے۔‘‘
پروفیسر سوزانے بَیک ایک مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اگر میں نے انٹرنیٹ پر گوگل سے کچھ تلاش کیا اور پھر اپنے فیصلے کی بنیاد انہی معلومات کو بنایا، تو یوں جو کچھ بھی میں کروں گی، اس کی ذمے داری بھی مجھ پر ہی عائد ہو گی۔‘‘
دیوانی اور فوجداری قوانین میں امتیاز
دوسری طرف جرمنی کی وُرسبُرگ یونیورسٹی کے روبوٹس سے متعلق قوانین پر تحقیق کرنے والے شعبے کے ماہر نکولاس وولٹ مان کہتے ہیں، ’’دیوانی قانون میں تو مشینوں کی غلطی کی ذمے داری ایک عرصے سے واضح طور پر ان کے مالکان پر عائد ہوتی ہے۔ مثلاﹰ آپ گاڑی چلا رہے ہیں اور اگر آپ کی گاڑی کسی حادثے کی وجہ بنتی ہے، تو ذمے دار آپ ہیں۔‘‘
لیکن نکولاس وولٹ مان کہتے ہیں، ’’فوجداری قانون کی بات الگ ہے۔ فوجداری جرائم کا ارتکاب صرف انسان کر سکتے ہیں، مشینیں نہیں۔ اور جب مشینیں ایسے جرائم کا خود ارتکاب کر ہی نہیں سکتیں، تو انہیں سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟‘‘
اس بارے میں سماجیات، قانون اور اخلاقیات کے ماہرین اب تک جس ایک بات پر متفق ہو سکے ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ بحث ایک بالکل نئے اخلاقی اور قانونی منظر نامے سے متعلق ہے، جہاں تاحال بہت کچھ غیر واضح ہے لیکن آئندہ برسوں میں اس سلسلے میں ٹھوس بنیادوں پر قانونی وضاحت اتنی ہی ناگزیر ہو گی جتنا روزمرہ زندگی میں مصنوعی ذہانت کا استعمال۔ ماہرین عمرانیات کے مطابق ان حالات میں المیہ یہ ہو گا کہ کوئی صنعتی روبوٹ یا خود کار مشین کسی انسانی جان کے ضیاع کا سبب بنے اور قانونی طور پر یہ طے ہی نہ کیا جا سکے کہ اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔