کیا نواز شریف جی ایچ کیو سے ہاتھ ملائیں گے؟
19 ستمبر 2018واضح رہے کہ نواز شریف نے معزول ہونے کے بعد بڑے بڑے جلسے کیے تھے، جس میں انہوں نے ملک کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا تھا۔ پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ان کے اس رویے کی وجہ سے ہی انہیں سزا دی گئی تھی۔
مسلم لیگ نون اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو فتح سے تعبیر کر رہی ہے۔ پارٹی کے رہنما مشاہد اللہ خان نے اس رہائی پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’یہ انصاف کی فتح ہے۔ ماضی میں بھی عدالتوں سے غلط فیصلے کرائے گئے، جیسے کہ بھٹو کی پھانسی لیکن ایسے فیصلے اب تاریخ کے کچرا خانے میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے اب کچھ سیکھا بھی جائے گا یا نہیں۔‘‘
مسلم لیگ اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ نواز شریف خاموش نہیں بیٹھے گے اور وہ سیاسی سر گرمیوں میں بھر پور انداز میں حصہ لیں گے۔ پارٹی کا یہ بھی موقف ہے کہ یہ رہائی کسی ڈیل کانتیجہ نہیں ہے۔ نون لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس مسئلے پراپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ڈیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ڈیل کرنی ہوتی تو میاں صاحب کو اتنی پریشانیاں اور مشکلات اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کی ضرور ت تھی۔ ابھی ان کی رہائی ہوئی ہے۔ ہزاروں لوگ تعزیت کے لیے آرہے ہیں۔ پہلے میاں صاحب ان سے ملیں گے۔ بعد میں پارٹی ان کی سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے فیصلہ کرے گی لیکن وہ ہر حالت میں جلسے، جلوس بھی کریں گے اور انٹرویوز وغیرہ بھی دیں گے۔ وہ خاموش نہیں بیٹھے گے۔‘‘
میاں صاحب کے قریب رہنے والے افراد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب خاموش نہیں رہیں گے لیکن کچھ اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کی جارحانہ سیاست سے ملک میں کشیدگی بڑھے گی۔
پی ٹی آئی کے رہنما ظفر علی شاہ نے جو ماضی میں میاں صاحب کے بڑے قریب رہے ہیں، اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرا تجزبہ یہ کہتا ہے کہ میاں صاحب فوج اور عمران کے خلاف محاذ بنائیں گے۔ اچکزئی، اسفندیار ولی اور دوسرے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔ ایسی صورت میں فوج بھی خاموش نہیں بیٹھے گی اور ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھے گی۔‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کے خیال میں نواز شریف ایک بار پھر مزاحمت کی سیاست شروع کریں گے: ’’نواز شریف کو معلوم ہے کہ ان کی سیاسی بقاء مزاحمت میں ہے۔ میرے خیال میں وہ سویلین برتری کے لیے ایک بار پھر جدوجہد کریں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جمہوری قوتوں کو متحد کریں گے۔ جس سے طاقتور حلقے ناراض ہوں گے اور سیاسی کشیدگی بڑھے گے۔‘‘
تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں نواز شریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیں گے: ’’میرے خیال میں میاں صاحب فوری طور پر ایسی مخالفانہ سرگرمیوں میں شامل
نہیں ہوں گے۔ تاہم وہ انتظار کریں گے کہ عمران اور فوج میں اختلافات ہوں، جو آج نہیں تو کل ہونے ہی ہیں۔ پھر وہ عمران کے خلا ف محاذ بنائیں گے اور ممکنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملائیں گے۔ جیسا کہ انہوں نے ماضی میں پی پی پی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملایا تھا۔‘‘