کیا پاکستان کو سیلابی نقصانات سے بچایا جا سکتا ہے؟
28 جولائی 2015گزشتہ کئی برسوں کی طرح اس سال بھی پاکستان شدید سیلابوں کی زد میں ہے۔ بے قابو سیلابی پانیوں نے ملک کے کئی حصوں میں کئی دیہات ملیا میٹ کر دیے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں سڑکیں اور پل تباہ ہو چکے ہیں، گلگت، بلتستان اور چترال کی خوبصورت وادیاں آفت زدہ قرار پا چکی ہے۔ جنوبی پنجاب کے علاقوں میں بھی مکین در بدر ہو رہے ہیں، کہیں غذائی قلت کا خدشہ ہے اور کہیں وبائی امراض پھیلنے کا خوف چھایا ہوا ہے۔ بلند بانگ حکومتی دعوؤں کے باوجود تباہی کی یہ داستان پاکستان میں ہر سال معمول کی کہانی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے عالمی ماہر ڈاکٹر قمرالزماں نے بتایا کہ پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے سیلابوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ڈاکٹر قمر کہتے ہیں، ’’ہم قدرت سے نہیں لڑ سکتے لیکن ہمیں سیلابوں کے ساتھ جینا تو سیکھ لینا چاہیے۔ دریاؤں کے پیٹ اور سیلابی میدانوں میں واقع وہ علاقے، جہاں موجود انسانی آبادیاں کو نوّے فیصد نقصان پہنچتا ہے، انہیں وہاں سے شفٹ کر دیا جانا چاہیے۔ ان علاقوں کو محدود کاشتکاری کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن وہاں بستیوں کا بسایا جانا درست نہیں ہے۔ ہم پورے پاکستان کو سیلاب سے نہیں بچا سکتے لیکن مناسب منصوبہ بندی اور موثر اقدامات کے نتیجے میں اہم اربن سینٹرز کو سیلابی نقصانات سے ضرور بچا سکتے ہیں۔‘‘
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ اقتصادیات کے سربراہ ڈاکٹر علی چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے جو اثرات رونما ہو رہے ہیں، ان سے میڈیا، سیاست دان اور پالیسی سازوں سمیت سب لوگ پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں جتنے اور جیسے سیلاب آئے ہیں، ہم نے ایسے سیلاب سّتر اور اسّی کی دہائی میں نہیں دیکھے تھے۔
ڈاکٹر علی چیمہ کہتے ہیں، ’’جدید دنیا میں فالٹ لائنز پر رہنے والے لوگوں نے اپنے تعمیراتی طریقوں اور طرز زندگی میں تبدیلیاں لا کر اپنے نقصانات کو کم کر لیا ہے لیکن ہم اتنے سالوں سے دریائی علاقوں میں موجود بستیوں کو نہیں ہٹا سکے۔ ہم پیشگی حفاظتی انتظامات کی بجائے آفت کے آنے پر شور مچانے اور آفت آنے پر کام شروع کرنے کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔‘‘
سینئر تجزیہ کار اقبال احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں سیلابی نقصانات کو کم کرنے کے لیے نئے آبی ذخائر کی تعمیر، موجودہ آبی ذخائر کی مرمت و صفائی، حفاظتی پُشتوں کی مضبوطی، آبپاشی اور دیگر متعلقہ محکموں سے کرپشن کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ان کی رائے میں پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ایک مئسلہ ہے اور جو شخص مکان خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، وہ دریائی علاقے میں جا کر گھر بنا لیتا ہے، ’’پانی آنے پر اسے مدد کی ضرورت پڑتی ہے اور پانی جانے پر وہ پھر وہاں آکر دوبارہ آباد ہو جاتا ہے۔ ہم عمارتیں بنانے اور افتتاحی فیتے کاٹنے کے شوقین تو ہیں لیکن ان عمارتوں کی دیکھ بھال ہمارے مزاج میں شامل نہیں ہے۔ ہمارا تربیلا ڈیم اپنی ایک تہائی سٹوریج کیپیسٹی کھو چکا ہے، ہم نے 1973ء کے بعد تربیلا جیسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔‘‘
اقبال احمد خان بتاتےہیں کہ پاکستان میں سیلاب کچھ لوگوں کے لیے آمدن کے مواقع بھی لے کر آتا ہے۔ اس سیلاب میں کچھ لوگوں کے گھر گر جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے شاندار گھر بن بھی جاتے ہیں۔ ان کے بقول چین سمیت بہت سے ملکوں میں سیلابی نقصانات کو کامیابی کے ساتھ کم کیا گیا ہے۔
انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان کے لاہور چیپٹر کے صدر انجینئر خالد سجاد نے بتایا، ’’ہم نے قومی اہمیت کے تکنیکی معاملات کو بھی سیاست بازی کی نذر کر دیا اور آج اسی کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔‘‘
یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے ڈین اور ماہر ابلاغیات ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیلابی علاقوں میں لوگوں تک اطلاعات کی موثر فراہمی یقینی بنا کر سیلاب کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، ’’مساجد اور رائے عامہ کے لیڈروں کو استعمال کر کے لوگوں کو آفت زدہ علاقے خالی کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ماحولیات جیسے ترقیاتی امور پاکستان کی قومی ابلاغی پالیسی کا کبھی حصہ نہیں رہے۔‘‘