یوکرین میں مداخلت پر کیا پوٹن کسی پر بھی حملہ کر سکتے ہیں؟
3 مئی 2022حالیہ ایام میں بالٹک ریاست لیٹویا کے شہریوں میں یہ احساس میں بڑھ گیا ہے کہ ان کے ملک پر روسی حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیٹویا صرف سرحد ہی نہیں تاریخی اعتبار سے بھی روس سے جڑا ہے۔ لیٹویا بھی سابقہ سوویت یونین کی عملداری میں تھا۔
بالٹک کی تین ریاستیں لتھوینیا، ایسٹونیا اور لیٹویا کو سن 1990 کی دہائی میں سوویت یونین کے زوال پر آزادی ملی تھی۔ یوکرین پر روسی حملہ ان ریاستوں کے لیے حیران کن تھا۔ ان ریاستوں کا کہنا ہے کہ جب امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ میں یوکرین پر روسی حملے کو یقینی قرار دیا گیا تھا تب فوری طور پر تادیبی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے تھے۔
بے چینی میں اضافہ
آزاد فوجی مبصر فیوری فیودوروف کو یقین ہے کہ صدر ولادیمیر پوٹن کی برق رفتار حملے سے مراد جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہے اور ان کا اشارہ واضح طور پر جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کی جانب بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں خاص طور پر برطانیہ اور امریکا سرِ فہرست ہیں۔
فیوری فیودوروف کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ پوٹن اور ان کے مشیروں کو یقین ہے کہ یوکرین کو روایتی ہتھیاروں سے شکست دینا ممکن نہیں اور ایسے میں کریملن کا آخری سہارا جوہری ہتھیار ہو سکتے ہیں اور انہی سے یوکرینی جنگ کا انجام کار نتیجہ سامنے آئے گا۔
ایٹمی جنگ کا خطرہ: کونسے ممالک جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں؟
ہائپر سونک کروز میزائل
کئی اور جنگی مبصرین کا خیال ہے کہ پوٹن کا فوری جوابی کارروائی کا اشارہ تھری ایم ٹو ٹو (3M22) زرکون جنگی بحری جہازوں کو تباہ کرنے والے ہائپر سونک کروز میزائل کی جانب بھی ہو سکتا ہے۔
اس کروز میزائل کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے ایس ایس این تھری تھری (SS-N-33) کا نام دے رکھا ہے۔ زرکون میزائل انتہائی برق رفتار ہے۔ فیوری فیودوروف کے مطابق یہ میزائل چار سو کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیونکہ زمینی ایداف ساکن ہوتے ہیں لہذا ان کا نشانہ بنانے میں رفتار بے معنی ہو جاتی ہے۔
رامشٹائن میٹنگ پر ردعمل
کارنیگی ماسکو سینٹر نامی تھنک ٹینک کے سیاسی مبصر اندری کولیسنیکوف کے مطابق پوٹن کی دھمکی اصل میں نیٹو کی جرمنی میں امریکی فضائی فوجی اڈے میں ہونے والی میٹنگ کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔ کارنیگی مسکو سینٹر کو روسی حکومت نے رواں برس اپریل میں بند کر دیا ہے۔
اندری کولیسنیکوف کا مزید کہنا کہ یہ دھمکی تزویراتی نہیں بلکہ جنگی داؤ اور ردعمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روسی صدر حالات و واقعات کے ساتھ اپنی حکمت عملی کا رخ متعین کرتے ہیں اور جب پوٹن کہیں کہ سب کچھ منصوبے کے مطابق ہے تو کوئی نہیں جان پاتا کہ جلد کیا ہونے والا ہے۔ کولیسنیکوف کا خیال ہے کہ امکانی طور پر پوٹن بھی واضح مقاصد نہ رکھتے ہوں گے لیکن ان کے فیصلوں کا انحصار مغربی اقوام کے اقدامات پر منحصر ہو گا۔
سیاسی مبصر کولیسنیکوف کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوٹن کی پشت دیوار سے لگ چکی ہے اور وہ یوکرینی جنگ میں پھنستے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پوٹن کبھی بھی مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھے اور وہ مذاکرات کو بے معنی سمجھتے ہیں۔
یوری ریشیٹو، ریگا (ع ح/ ع ا)