چین مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے کیوں کوشاں ہے؟
1 مئی 2023چین حالیہ ہفتوں کے دوران مشرق وسطیٰ میں اپنی سفارتی سرگرمیاں کافی زیادہ بڑھا چکا ہے اور خود کو ایک ایسی قوت کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کر رہا ہے جو اس خطے میں طویل عرصے سے موجود تنازعات کو حل کرا سکتا ہے۔
چین نے روایتی حریف ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان چھ اپریل کو ایک امن معاہدہ کرایا تھا جس کے تحت دونوں ممالک نے نہ صرف سفارتی تعلقات دوبارہ استوار کرنے پر اتفاق کیا بلکہ تناؤ میں کمی کے لیے دیگر اقدامات پر بھی عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ اس پیشرفت کے بعد اب بیجنگ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بھی امن عمل میں معاونت کی کوششوں میں ہے۔
اسرائیلی اور فلسطینی حکام کے ساتھ ٹیلفونک رابطوں کے بعد، چینی وزیر خارجہ شِن گانگ نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ ’پر سکون‘ رہیں جبکہ ساتھ ہی انہوں نے ’تحمل‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے امن مذاکرات اور دو ریاستی حل پر عملدرآمد پر بھی زور دیا۔
انہوں نے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ فسلطینیوں کے ساتھ بات چیت کریں اور ساتھ ہی کہا کہ چین اسے ممکن بنانے کے لیے اپنی مدد فراہم کرنے کو تیار ہے۔ فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی کے ساتھ ایک الگ ٹیلی فون کال میں انہوں نے بیجنگ حکومت کو مؤقف دہرایا۔
سعودی عرب اور ایران کی سرکاری دوروں کی منصوبہ بندی
کیا مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار کم زور ہو رہا ہے؟
چین کی ثالثی میں سعودی ایران معاہدہ امریکہ کے لیے امتحان
چینی وزارت برائے خارجہ امور کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق شن گانگ کے ساتھ ٹیلی فون کال کے دوران ریاض المالکی نے ’’چین کی طرف سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کی تعریف کی‘‘، یہ کہتے ہوئے کہ اس سے چین کے ایک اہم اور ذمہ دار ملک کے کردار کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
اسی بیان کا حوالہ مغربی کنارے میں قائم اور الفتح سے منسلک نیوز ایجنسی وفا نیوز ایجنسی کی طرف سے بھی دیا گیا اور بتایا گیا کہ المالکی نے خطے کی سلامتی اور تعمیر وترقی کے لیے چین کی شمولیت کا خیرمقدم کیا۔
وفا نیوز ایجنسی کے مطابق المالکی نے اپنے چینی منصب پر زور دیا کہ وہ تعلقات میں بہتری اور مختلف تجارتی معاہدوں کے سلسلے کو تقویت دیں۔
چین کی توجہ ’وسائل اور مارکیٹس کے حصول‘ پر ہے
بیجنگ مختلف ممالک کے درمیان طویل مدت سے موجود تنازعات کو ’عدم استحکام‘ کی وجہ اور طویل المدتی کاروباری مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
ڈان مرفی یو ایس ایئر وار کالج کے شعبہ انٹرنیشنل سکیورٹی اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مرفی کا کہنا تھا، ’’مشرقی وسطیٰ میں چین کی سب سے اہم ترجیح وسائل اور کاروباری منڈیوں کا حصول ہے، جن میں اقتصادی اور سیاسی مفادات شامل ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’چین کو اصل میں ان تنازعات کو حل کرنے میں ایک فائدہ ہے، کیونکہ وہ اس خطے میں استحکام سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بطور ایک ثالث اپنا کردار ادا کرنے سے چین کو یہ ثابت کرنے کا موقع ملتا ہے کہ وہ یہ دکھا سکے کہ وہ ایک بڑی قوت ہے جو مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے سے قبل بھی چین مشرق وسطیٰ کے ممالک کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر رہا ہے اور اس نے 2005ء سے 2022ء کے دوران 273 بلین امریکی ڈالرز تیل کی خریداری یا دیگر سرمایہ کاری پر لگائے۔ چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے سے جس کا آغاز 2013ء میں ہوا، بیجنگ کو پورے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملی۔
’’چین مناسب وقت پر مناسب کھلاڑی تھا‘‘
گو چین مشرق وسطیٰ میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے، مگر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بیجنگ کی خواہش اور اس علاقے کے حوالے سے اصل صورتحال کو ضرورت سے زیادہ سمجھ لیا گیا ہے۔
اسرائیل کے انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز سے منسلک ماہر ٹوویا گیرنگ کے بقول، ’’چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے ایک موقع دیکھا اور اس کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا۔‘‘
گیرنگ کے بقول تاہم ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا معاہدہ اصل میں مختلف ممالک کی مدد سے دو برس تک جاری رہنے والی کوششوں کا نتیجہ تھا جن میں عمان، عراق اور امریکہ شامل تھے۔ گیرنگ کا کہنا تھا کہ ’’چین بس مناسب وقت پر مناسب کھلاڑی تھا‘‘۔ ان کے بقول اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ دونوں فریق کوئی امن بات چیت شروع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور چین کے بطور ایک متوازن ثالث کردار کے بارے میں خدشات ہیں۔‘‘
کیا چین، مشرق وسطیٰ میں امریکی غلبے کو چیلنج کر سکتا ہے؟
ایک ایسے وقت میں جب چین مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں ہے تو عالمی برادی کی نظر اس بات پر ہے کہ چین کس طرح اس خطے میں اپنی جگہ بنا سکتا ہے جو بہت طویل عرصے سے امریکی اثر میں ہے۔
یو ایس ایئر وار کالج کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈان مرفی کے مطابق، ’’چین خود کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتا ہے جو ان فریقوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے جن کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔‘‘ مرفی کا مزید کہنا تھا، ’’میرا نہیں خیال کہ چین سلامتی کی یقین دہائیاں کرانے کا ارادہ رکھتا ہے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک یہ توقع نہیں کرتے کہ چین وہی کردار ادا کرے گا جو امریکہ کرتا ہے۔‘‘
یہاں تک کہ کچھ امریکی پالیسی ساز بھی چین کے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو تحفظات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اسرائیل کے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز سے منسلک ٹوویا گیرنگ کے خیال میں تاہم امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بیجنگ کی طرف سے علاقائی تنازعات میں ثالثی کی کوشش کو ایک مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے گیرنگ کا کہنا تھا، ’’وہ سمجھتے ہیں کہ چین بالآخر ایک ذمہ دار بڑی قوت کے طور پر عمل کر رہا ہے اور اس کے پاس مشرقی ایشیا میں اپنا اثر بڑھانے کا اچھا موقع ہے۔‘‘
گیرنگ کے بقول، ’’میں نہیں سمجھتا کہ چین تنازعات میں فوجی حوالے سے ملوث ہو گا، لیکن یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ چین مزید فوجی اڈے قائم کرے، جو میزبان اقوام کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے اور اقوام متحدہ کے فریم ورک کے مطباق عمل میں آئے۔‘‘
ولیم ژینگ، تائی پے (ا ب ا/ع ت)