کیا گالی دینا پنجاب کا کلچر ہے؟
19 جون 2021ثقافت، زبان، رسم و رواج، اقدار، رہن سہن اور آداب و اخلاق وہ عناصر ہیں، جنہیں قومیں اپنا فخر سمجھتی ہیں۔ انہیں جدید دور کے سماجی اطوار کے ساتھ مربوط بنانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ لیکن جو قومیں اپنے تہذیبی و ثقافتی ورثے کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں وہ ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہمیں، جو ثقافتی رنگ نظر آتے ہیں، ان میں خوبصورتی کم اور بدنمائی غالب دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اراکین کا آئے دن بحث و تکرار اور آپس میں گتھم گتھا ہونا تو وہاں کی ثقافت کا ہمیشہ ہی سے ایک حصہ رہا ہے۔ تاہم زبانی، کلامی تصادم سے بڑھ کر ہاتھا پائی، شور و غُل، ایک دوسرے پر آوازیں کسنا اور ایک دوسرے کو 'خوبصورت القابات‘ سے نوازنے کا رواج کچھ عرصے سے عام ہوتا جا رہا ہے۔ خاتون ہو یا مرد بلا تفریق کسی کی عزت اُچھالنا، کسی پر طنز کرنا یا اپنی بلند آواز سے دوسرے کی آواز کو دبانا، یہاں تک تو معاملات ایک عرصے سے چل ہی رہے تھے کہ اب نوبت گالی گلوچ تک آ پہنچی ہے۔
مظلوم کو لاقانونیت کے شکنجے سے کوئی کیسے نکالے؟
گالی کسی ایک کلچر کا خاصہ؟
شیخ روحیل اصغر ممبر نیشنل اسمبلی کے حالیہ بیان نے پاکستان میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے اور اس کے متعدد منفی پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ '' گالی دینا پنجاب کا کلچر ہے‘‘۔ ان کا یہ فقرہ نہ صرف تمام پنجابیوں کی دل شکنی کا سبب بنا ہے بلکہ اس سے ملک میں پہلے سے ہی پائے جانے والے تعصبات کو مزید تقویت ملے گی۔
پاکستان پہلے ہی لسانی، ثقافتی، علاقائی، سماجی، سیاسی طبقاتی اور نا جانے کس کس طرح کی تقسیم کا شکار ہے۔ ایسے معاشرے میں کسی سیاستدان کا اس قسم کا بیان محض 'تخریبی‘ ثابت ہو گا۔ شیخ روحیل صاحب کی یہاں پنجاب سے مراد پنجابی تھے یعنی ان کے بیان سے یہ ظاہر تھا کہ پنجابیوں کے کلچر میں گالی دینا ایک عام سی بات ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ قومی اسمبلی میں وہ بطور پنجابی نہیں بلکہ بطور پاکستانی سیاستدان گفتگو کر رہے تھے۔ ان کا بیان سننے والوں میں بہت سے ایسے پاکستانی باشندے بھی شامل تھے، جنہوں نے شاید کبھی کسی پنجابی سے براہ راست بحث نا کی ہو لیکن انہوں نے بھی یہ سن رکھا ہو کہ ' پنجاب میں گالیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرنے‘ کا رواج عام ہے۔ ایسے افراد کے اذہان پر اب یہ بات طاری رہے گی اور وہ جب بھی کسی پنجابی بولنے والے سے گفتگو کریں گے تو یہ تعصب ان پر پہلے سے ہی سوار رہے گا۔
انتہاپسندی، ماضی کی مہربانیوں کا ہے یہ فیض
زبان سے ثقافت یا ثقافت سے زبان؟
زبان کیا ہے؟ انسانوں کا ذریعہ اظہار، جو الفاظ اور بندھے ہوئے قواعد پر مشتمل ہو۔ کلچر یا ثقافت ذہنی اور اخلاقی تہذیب کی ظاہری شکل ہے، جس میں زبان ایک بنیادی عنصر ہوتی ہے۔ ان دونوں کو علیحدہ علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ معاشرتی علوم کے ماہرین کے مطابق ہر علاقے، ہر خطے کے مقامی باشندوں کی ثقافت پر اُس علاقے کا ماحول، وہاں کی روزمرہ زندگی کے معاملات اور وہاں کی اکثریت کا پیشہ، تعلیمی پس منظر اور گھریلو تربیت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے زبان کو کسی خاص لب و لہجے میں ڈھالنا انسانوں کے اپنے رویے پر منحصر ہوتا ہے۔
مشرق ہو یا مغرب لسانی تنوع اور لسانی تعصب ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ زبانیں سُننے میں نہایت دلخوش کُن ہوتی ہیں اور کچھ زبانیں کرخت یا سخت سنائی دیتی ہیں۔ دنیا میں کوئی بولی یا زبان ایسی نہیں، جس میں نازیبا الفاظ یا گالی وغیرہ نہیں پائی جاتی تاہم ایسے الفاظ کا کثرت سے استعمال کرنا چند لسانی گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے۔
برصغیر کے وہ علاقہ، جہاں فارسی کے اثرات مقامی زبانوں پر زیادہ نظر آتے ہیں، وہاں کی زبان عموماً شائستہ اور کانوں کو بھلی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح یورپی زبانوں اور مقامی بولیوں میں فرانسیسی کے اثرات جہاں جہاں زیادہ ملتے ہیں، وہاں کی زبان زیادہ چاشنی سے بھرپور یا میٹھی سنائی دیتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذکورہ زبانوں میں نازیبا الفاظ یا گالی وغیرہ نہیں پائی جاتی۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسے الفاظ کا استعمال کر کے دوسروں پر خود کو مسلط کرنے کے رویے کی تربیت کی ضرورت ہے۔
۔جنگ کے خوف سے لرزاں ایک بچی سوال پوچھتی ہے!
پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قومی اسمبلی میں جب روزانہ کی کارروائی اردو زبان میں ہوتی ہے، تو وہاں مختلف صوبائی زبانوں میں سیاسی مخالفین کے ساتھ متصادم ہونے کا کیا جواز بنتا ہے؟ دوسری بات یہ کہ پنجاب کیوں کہ آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے، اس لیے بہت سے شعبوں میں اس کا غلبہ نظر آتا ہے، کسی بھی اجتماع میں اگر اکثریت پنجابی زبان بولنے والوں کی ہے تو وہ اسی زبان میں گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ لیکن ایسے ایوانوں میں بیٹھ کر زبان کو سیاسی ہتھکنڈا بنانا، جہاں کی آواز پوری قوم سُن رہی ہو، غیر مناسب رویہ ہے۔
صلاح الدین نہیں، انسانیت نے دم توڑ دیا
'گالی پنجاب کا کلچر ہے یا نہیں‘ اس سے قطع نظر ایسے بیانات دینا اور پھر اُس کا دفاع کرنا یقیناً قابل تنقید ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایوانوں اور اسمبلیوں میں بیٹھ کر بھی وہی رویہ اور زبان استعمال کرتے ہیں، جو لاہور، کراچی یا کسی اور شہر کی سڑکوں پر بولی جاتی ہے۔ وہ گلی کوچوں اور بازاروں کی زبان اور سرکاری دفاتر، سیاسی اجتماعات اور ایوانوں کے آداب و اطوار میں تمیز نہیں کر پاتے۔
خدارا! آپ حضرات آنے والی نسلوں کی تعمیر نہیں کر سکتے تو ان کی تخریب کا باعث بھی نہ بنیں۔
کشور مصطفیٰ