کیا ہوائی اڈوں کا مکمل تحفظ تقریباﹰ ناممکن ہے؟
23 مارچ 2016برسلز کے بین الاقوامی ہوائی اڈے میں روانگی کے ہال میں پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑانے تک ان دہشت گردوں کو نہ کہیں پاسپورٹ دکھانا پڑا اور نہ ہی کسی چیکنگ سے گزرنا پڑا۔ اس سے نقل و حرکت کے مراکز میں تحفظ اور سلامتی سے متعلق موجود مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
گیارہ ستمبر 2001 ء میں امریکا میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے دنیا بھر میں شہری ہوا بازی کے شعبے میں سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا تھا۔ دہشت گردوں نے چار مسافر طیارے اغوا کر کے انہیں مختلف عمارتوں کے ساتھ ٹکرا دیا تھا۔ تاہم ان حملوں کے بعد سکیورٹی میں اضافہ کر کے پروازوں کو محفوظ بنانے پر توجہ مرکوز رکھی جا رہی تھی۔
یہ یقینی بنانے کے لیے کہ کوئی دھماکا خیز مواد طیارے تک نہ پہنچ سکے، مسافروں کی نہایت تفصیلی جانچ کی جاتی ہے اور ان کے سامان کی اسکریننگ بھی ہوتی ہے۔ کسی مسافر کو اپنے ہم راہ کوئی مائع لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی، کوئی چھری، کوئی تیز دھار آلہ اپنے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا اور کبھی کبھی تو مسافروں کے جوتے تک اتروا کر چیکنگ کی جاتی ہے۔
اسرائیل میں اس سلسلے میں نہایت سخت حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ تل ابیب ایئرپورٹ کی جانب بڑھا جائے توہوائی اڈے میں داخلے سے قبل متعدد مقامات پر سکیورٹی چینکنگ ہوتی ہے اور کچھ جگہوں پر مسافروں سے سوالات بھی کیے جاتے ہیں۔ ٹرمینلز میں داخل ہوتے ہوئے بھی تمام سامان اور افراد کو میٹل ڈیٹکٹرز سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کی سخت جانچ ہوتی ہے۔
عرب مسافروں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ انہیں جان بوجھ کر الگ کر کے ان کی مزید سخت چیکنگ کی جاتی ہے اور سکیورٹی حکام ان سے بعض اوقات ان کی ای میلز بھی دکھانے کو کہتے ہیں۔
اس طرح سوالات کے دوران جو افراد غیرعمومی رویہ اپناتے ہیں یا مشتبہ جوابات دیتے ہیں، ان کی ای میلز اور پیغامات کی جانچ کی جاتی ہے۔
اسرائیلی سکیورٹی ماہر رافی سیلا کا کہنا ہے، ’’چلیے فرض کر لیتے ہیں کہ کسی شخص نے اپنے سامان میں کوئی بم چھپا رکھا ہے۔ ہم ظاہر ہے وہ بم تو ٹرمینل تک پہنچتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے مگر ایسا شخص اپنا رویہ نہیں چھپا سکتا۔‘‘
جرمن ایئرلائن مشیر گیرالڈ ویسل کے مطابق ممکن ہے کہ برسلز حملوں کے بعد ہوائی اڈوں کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی اسرائیل کی طرح حفاظتی اقدامات میں اضافہ کر دیا جائے، مگر انہوں نے خبردار کیا کہ ایسی حکمتِ عملی سے مزید کئی طرح کے سوالات پیدا ہو جائیں گے اور اس کے لیے مزید جگہ اور مزید سرمایے کی ضرورت پڑے گی۔
فرینکفرٹ ایئرپورٹ یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے جہاں پر ہر روز ایک لاکھ ستر ہزار افراد، 80 ہزار ملازمین اور نامعلوم تعداد میں ایئرپورٹ آنے والے افراد کی جانچ ایک انتہائی مشکل اور مہنگا عمل ہو گا۔
تاہم اس کے ساتھ ساتھ ویسل کا یہ بھی کہنا ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سخت حفاظتی عمل کی وجہ سے دہشت گردی کے کئی ممکنہ منصوبے روکے گئے اور ہوائی اڈوں کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے بھی مزید سخت اقدامات کی ضرورت موجود ہے۔