کیا ہے ارنب گوسوامی پر حملہ اور گرفتاری سے راحت کا معاملہ؟
24 اپریل 2020اپوزیشن کانگریس پارٹی نے ارنب پر مہاراشٹر میں دو سادھوؤں کی ماب لنچنگ کے واقعے پراپنے ٹی وی شو میں ڈیبیٹ کے دوران مذہبی منافرت بھڑکانے اور پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی کے خلاف 'انتہائی نازیبا کلمات‘ استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک کی مختلف ریاستوں میں معاملہ درج کرایا اور گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔
دوسری طرف ارنب گوسوامی نے بھی ایک معاملہ درج کرکے الزام لگا یا تھا کہ جب ٹی وی شو کے بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ گھر واپس لوٹ رہے تھے تو دو لوگوں نے ان پر حملہ کردیا۔ لیکن بعض لوگوں نے اس حملے کی صداقت پر ہی سوالات اٹھائے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پریس کاونسل آف انڈیا سمیت متعدد صحافتی انجمنوں، معروف صحافیوں اور سیاسی جماعتوں نے اس حملے کی شدید مذمت کی۔
دراصل ارنب نے 22 اپریل کی رات اپنے ٹی وی شو میں پال گھر میں دو سادھووں کی ماب لنچنگ کے واقعے پر مباحثہ کرا یا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ نصف شب کے بعد گھر لوٹ رہے تھے تو مبینہ طور پر کانگریس سے تعلق رکھنے والے دو لوگوں نے ان پر حملہ کردیا۔ انہوں نے اس واقعے پر ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں پوسٹ کیا۔ لیکن انہوں نے کئی سوالات کے جواب نہیں دیے مثلاً یہ دعوی کیا کہ حملہ آوروں کو پکڑ لیا گیا تھا لیکن یہ نہیں بتاسکے کہ وہ فرار کیسے ہوگئے۔
اپنے مذکورہ ڈیبیٹ میں ارنب نے کانگریس کی رہنما پر الزام لگایا کہ”سادھووں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے سے سونیا گاندھی دل ہی دل میں بہت خوش ہیں اور اس کی رپورٹ اٹلی (اپنے آبائی وطن) بھیجیں گی کہ جس ریاست (مہاراشٹر) میں انہوں نے حکومت بنوائی ہے وہاں ہندو سادھووں کا قتل کروارہی ہیں۔"
کانگریس کے متعدد وزرائے اعلی اور سینئر رہنماوں نے ارنب کے اس بیان کی سخت مذمت کی اور ان کے خلاف مقدمات درج کرا دیے۔
ارنب کے وکیل مکل روہتگی کی دلیل تھی کہ ان کے موکل کے خلا ف جو شکایات درج کرائی گئی ہیں وہ بے بنیاد ہیں اور یہ ایف آئی آر پریس کی آزادی کو دبانے کے لیے درج کرائے گئے ہیں۔ دوسری طرف حکومت مہاراشٹر کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل اور کانگریسی رہنما کپل سبل کا کہنا تھا کہ اس وقت پورا ملک کورونا کے بحران سے دوچار ہے ایسے میں کچھ لوگ مذہبی منافرت اور تشدد بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ پریس کی آزادی کے نام پر کسی کو کچھ بھی بولنے کی آزادی نہیں دی جاسکتی۔
سپریم کورٹ نے بہر حال ارنب کو گرفتاری سے تین ہفتوں کی راحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ پیشگی ضمانت کی عرضی دائر کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان چھ ریاستوں کو بھی نوٹس جاری کرکے ان سے رپورٹ طلب کی ہے جہاں ارنب کے خلاف مجموعی طور پر سولہ معاملات درج کرائے گئے ہیں۔
بھارت میں ارنب کو چاہنے اور ان سے نفرت کرنے والے دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں۔ ارنب پر الزام ہے کہ وہ صرف حکومت کی حمایت والی صحافت کرتے ہیں، حکومت سے کوئی سوال نہیں پوچھتے، ان کے تمام سوالات اپوزیشن لیڈروں سے ہوتے ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ ان کا ٹی وی چینل دراصل ایسے لوگوں کی مالی مدد سے شروع ہوا تھا جو یا تو بی جے پی کے رکن ہیں یا بی جے پی سے کسی نہ کسی طرح کا تعلق رکھتے ہیں۔ ارنب کے والد منورنجن گوسوامی بھی بی جے پی کے رکن رہ چکے ہیں اور بی جے پی کی ٹکٹ پر 1998میں گوہاٹی حلقے سے انتخاب لڑ چکے ہیں، جہاں کانگریسی امیدوارکے ہاتھوں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ارنب گوسوامی کے رویے اور ان پر حملے نیز ان کے خلاف مقدمات کے بعد بھارت میں پریس اور میڈیا کے رول اور اس کی آزادی کا سوال ایک بار پھر موضوع بحث ہے۔
بھارت میں آئینی طور پر میڈیا کو آزادی حاصل ہے۔ لیکن بھارتی میڈیا کے بہت بڑے حلقے پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ موجودہ نریند ر مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ گئی ہے۔ رپورٹرز ودآوٹ بارڈر کی طرف سے گزشتہ ہفتے جاری 2020 ورلڈ پریس فریڈم انڈکس کے مطابق 2019 میں بھارت دو پوائنٹ گر کر 180ملکوں کی فہرست میں 142 ویں مقام پر آگیا ہے۔