کیا یورپی یونین بریگزٹ برداشت کر پائے گی؟
24 جون 2016دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی یونین کے قیام کا خیال اس لیے سامنے آیا تھا، تاکہ مشترکہ طور پر کام کر کے تنازعات کے خاتمے اور ترقی کی راہ ہم وار کی جائے اور گزشتہ کئی دہائیوں میں اس یونین میں شامل ملکوں کی قربت اور پورے براعظم کی ترقی نے اس یورپی یونین پروجیکٹ کا ایک کامیاب نقشہ پیش کیا تھا۔ تاہم 23 مئی کو برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم میں یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے حق میں عوامی رائے سامنے آنے پر یہ سوالات سامنے آ رہے ہیں کہ اپنے سب سے بڑے رکن ممالک میں سے ایک اہم کو کھو دینے کے بعد کیا یورپی یونین قائم رہ پائے گی؟
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے عوامی فیصلے کے تناظر میں دو نکات اہم ترین رہے، جن میں سے ایک اقتصادی مسائل اور دوسرا مہاجرین کا بحران رہا، کیوں کہ ان دو اہم مسائل سے پورا یورپی بلاک نبردآزما ہے۔
بریگزٹ کے بعد اب یہ راہ بھی ہم وار ہو گئی ہے کہ یورپی یونین کی کوئی اور رکن ریاست اسی طرز کے ریفرنڈم کے بعد یونین سے الگ ہو سکتی ہے، یعنی بریگزٹ کی وجہ سے 60 سال پرانی یہ یونین پہلی مرتبہ اتنی کمزور حالت میں آ گئی ہے ۔
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک نے خبردار کیا ہے کہ یونین کی رکن ریاستوں نے اگر بریگزٹ طرز کے ریفرنڈم کرانے کی راہ اختیار کی، تو یہ صرف یورپی یونین کی ہی نہیں بلکہ پوری ’’مغربی سیاسی تہذیب‘‘ کی تباہی ہو گی۔
ٹُسک کا کہنا ہے کہ یورپ کو ایک جانب روسی خطرات اور دوسری جانب دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔ ’’ہمارے دشمن آج شراب کی بوتل کھول کر جشن منا رہے ہوں گے۔‘‘
کیمبرج یونیورسٹی کے لیکچرار اور یورپی امور کے ماہر کرس بیکرٹن کے مطابق، ’’برطانیہ سے یورپی یونین کا اخراج یقیناﹰ یونین کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا، تاہم اس سے یورپی یونین کے بنیادی سیاسی نظام پر فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں البتہ ماضی کے مقابلے میں یہ یونین ویسی مضبوط بھی نہیں رہے گی۔‘‘