کیا یورپی یونین کے رکن ملکوں میں حجاب پر پابندی ہے؟
31 جنوری 2023
یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں حجاب کے عالمی دن کی مناسبت سے عوامی سطح پر اس امر پر زور دیا جا رہا ہے کہ حجاب کے موضوع پر کھل کر بات چیت کے لیے ایک پُر امن اور موزوں ماحول پیدا کیا جائے۔
یورپی یونین میں شامل ممالک میں مسلمان خواتین کے پردے یا حجاب کے خلاف پائے جانے والے تحفظات پر برسوں سے بحث جاری ہے۔ چند یورپی اقوام پردے یا حجاب پر پابندی کا دفاع کرتی ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اسپابندی سے مذہبی جبر اور دہشت گردی سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ دیگر اقوام مسلم خواتین کے حجاب یا پردے پر پابندی کو خواتین کے حقوق کی کی نفی اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک مانتی ہيں اور ان کا ماننا ہے کہ اس طرح یورپ میں انضمام کی راہ میں بھی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔
پورپی یونین کے چند ممالک نے پہلے ہی مسلم خواتین کے برُقع پر سخت پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یعنی پورے جسم کو ڈھانپ کر آنکھوں کے ارد گرد جالی والا نقاب ڈالنے یا چہرے تک کا ایسا پردہ جس میں صرف آنکھیں نظر آتی ہوں، کا استعمال ان یورپی ممالک میں جزوی یا مکمل طور پر ممنوع ہے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم وکلاء پر مشتمل ایک گروپ 'اوپن سوسائٹی جسٹس انیشی ایٹیو‘ کی 2022 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اس طرح کی پابندیوں کا نفاذ دراصل نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد امریکہ کی طرف سے 'دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کے اعلان کے بعد ہوا۔ تب سے مسلمانوں کو ان کے لباس کی وجہ سے شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ اس رپورٹ کے مصنفین نے تحریر کیا، ''یہ خیال کہ مسلمان ایک گروہ کے طور پر نئے 'اندرونی دشمن‘ ہیں، جن کے عقائد اور طرز عمل یورپ کے مقابلے میں کمتر اقدار اور اصولوں کی عکاسی کرتے ہیں سیاسی سطح پر باقاعدہ قانونی جواز بن گیا۔‘‘
ہالینڈ میں بھی برقعے پر پابندی، عملدرآمد شروع
ورلڈ حجاب ڈے آرگنائزیشن کا موقف
ورلڈ حجاب ڈے آرگنائزیشن کے بلاگ کی ایڈیٹر رمکی چودھری، جو اب سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں مقیم ہیں، نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،''میرے لیے یہ ایک مشکل وقت تھا کیونکہ میں امریکہ میں پلی بڑھی ہوں اور نائن الیون کے بعد میرے لیے حجاب پہننے کے بارے میں سوچنا بھی مشکل تھا کیونکہ اس سارے پروپیگنڈے کے پيچھے ایک ہی سوچ تھی کہ ُان بڑے دہشت گردانہ واقعات کے پیچھے مسلمان تھے۔ اس لیے میں حجاب پہننے کی وجہ سے امتیازی سلوک سے خوفزدہ تھی۔‘‘
رمکی چودھری تمام مفروضات کو ایک غلط فہمی قرار دیتی ہیں ۔ ان کے بقول، ''حقیقت میں یہ ایک غلط فہمی ہے کیونکہ قرآن کے مطابق اگر آپ ایک انسان کو قتل کرتے ہیں، تو یہ عمل انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور میں نے محسوس کیا کہ لوگ مسلمانوں کے بارے میں جو دعویٰ کر رہے ہیں وہ سچ نہیں ہے۔ لوگ صرف الزام لگانے کے لیے کسی کی تلاش میں تھے۔ وہ غصے میں تھے، غمگین تھے اور ان کا سارا غصہ اور دُکھ بالآخر مسلمانوں پر اور ان کے پہناوے تک پر نکلا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،''بالآخر میں نے حجاب پہننے کے بارے میں لوگوں کی سوچ پر قابو پا لیا کیونکہ میرے لیے یہ ہمیشہ سے ہی کچھ ایسا رہا ہے جو مجھے اپنے خدا کے قریب کرتا ہے۔‘‘
کیا یورپی یونین میں حجاب پر پابندی ہے؟
امریکہ میں 9/11 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد 2010 ء میں عوامی مقامات پر برقع اور نقاب پر پابندی عائد کرنے والا یورپی یونین کا پہلا رُکن ملک فرانس تھا۔ اس ملک میں اس طرح کے نقاب کو خواتین پر ظلم و جبر کی علامت قرار دیا گیا تھا۔
آسٹریا، بیلجیم، بلغاریہ، ڈنمارک، اٹلی کے (کچھ علاقوں میں)، نیدرلینڈ (عوامی مقامات پر) اور اسپین (کاتالونیا کے کچھ حصوں میں) ميں نقاب پرپابندیکی پیروی کی گئی۔ دوسری جانب جرمنی برقع اور نقابوں کے حوالے سے منقسم ہے۔ کچھ جرمن ریاستوں نے اسکولوں اور عوامی مقامات پر برقع یا نقاب کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے، جبکہ دیگر جرمن ریاستوں کو خدشہ ہے کہ یہ پابندیاں معاشرتی انضمام کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
جولائی2021 ء میں یورپی کورٹ آف جسٹس (ECJ) کی طرف سے یہ فیصلہ سامنے آیا تھا کہ کسی ایسے کام میں جس میں خواتین کا واستہ عوام سے پڑتا ہو، مسلم خواتین کو حجاب اتارنے سے انکار کرنے پر ان کی ملازمتوں سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں جرمن ججوں نے دو آجرین کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے دو خواتین، جنہوں نے کام کے دوران سر پر اسکارف پہننے پر اصرار کیا تھا، کو ملازمت سے برطرف کرنے کے سلسلے میں ایک درخواست دی تھی۔ اس کے جواب میں ای سی جے کے ججوں نے کہا تھا، ''کام کی جگہ پر سیاسی، فلسفیانہ یا مذہبی عقائد کے اظہار کی کسی بھی ظاہری شکل کے استعمال پر پابندی، آجر کی طرف سے صارفین کے لیے غیر جانبدارانہ تصویر پیش کرنے یا سماجی تنازعات کو روکنے کی ضرورت کے مطابق ہو سکتی ہے۔‘‘
تاہم اکتوبر 2022 ء میں ای سی جے کی طرف سے ایک فیصلہ آیا جس میں کہا گیا کہ یورپی یونین کی کمپنیوں کو اپنے کارکنوں کی طرف سے مذہبی علامات پہننے پر پابندی عائد کرنے کا جواز پیش کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آيا جب یورپی عدالت بیلجیئم میں ایک مسلم خاتون، جسے کہا گیا تھا کہ وہ کام کرنے کے دوران حجاب نہیں پہن سکتی، کے بارے میں ایک کیس کا جواب دے رہی تھی۔ مذکورہ فرم نے کہا کہ یہ فیصلہ 'غیر جانبداری کے اصول‘ کا حصہ ہے اور یہ ملازمین میں مساوات کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔
اُدھر'اوپن سوسائٹی جسٹس اینیشی ایٹیو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے بیشتر ممالک میں چہرے کے نقاب اور سر پر اسکارف پر پابندی جیسے قوانین کو بنیادی طور پر قوم پرست اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے فروغ دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ یورپی یونین کی پانچ ریاستیں، کروشیا، قبرص، یونان، پولینڈ اور پرتگال نے کبھی بھی سر یا چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی کے موضوع پر پر عوامی سطح پر بحث نہیں کی۔
مستقبل کی راہیں
ٹورنٹو اور برلن کے درمیان 'شٹلنگ‘ کرنے والی انسانی حقوق کی ایرانی کارکن سائی اسکائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب لوگوں کے حجاب پہننے کے بارے میں بات چیت کے لیے محفوظ ماحول پیدا کرنے کے لیے یورپی یونین کو بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
''یہاں مغرب میں حجاب ایک مسالہ دار موضوع ہے، لیکن اس بارے میں فہم کی کمی ہے کہ اسے پہننے والی خواتین کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے۔ ایران میں پچھلے 43 سالوں سے خواتین حجاب نہ پہننے کی وجہ سے جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ افغانستان میں طالبان افغان خواتین پر اسکارف پہننے کو لازمی قرار دیتے ہوئے اس بارے میں اتنے سخت قوانین نافذ کر رہے ہیں۔ بہت سے ممالک میں خواتین اسے اپنی شناخت اور اپنے نظریات کے اظہار کا ایک اہم جُزو سمجھتی ہیں۔‘‘
پریانکا شنکر/ ک م/ ع س