کیریئر پہلے، بچے بعد میں
27 اگست 2013ایک حالیہ رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تائیوان کی انفرادی قوت میں خواتین ایک نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تائیوان کی معیشت میں سست روی نے تحفظ روزگار کو مشکل بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں شادی کی اوسط عمر 30 سال ہو گئی ہے، جو 1980ء تک 24 سال تھی اور یہی وجہ ہے کہ خواتین میں بیضے منجمد کروانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
لن کیو کی عمر 34 برس ہے اور انہوں نے 3 سال پہلے اپنے بیضے منجمد کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے، ’’مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ کب میرے بیضہ دان بیضے بنانا بند کر دیں گے لیکن مجھے یہ معلوم تھا کہ میں شادی تاخیر سے کروں گی اور میں یقینی طور پر ماں بننا چاہتی تھی‘‘۔ کیو سسکو سسٹم لمیٹڈ تائیوان میں ایک مینیجرہیں اور معقول تنخواہ لیتی ہیں۔ ان کی کمپنی انہیں گھر سے بیٹھ کر کام کرنے کی اجازت بھی دیتی ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ محبت کے معاملے میں خوش قسمت نہیں رہیں۔ انہیں اپنی ماں کے مرنے کے بعد اس بات کا احساس ہوا تھا کہ بڑھاپے میں بچوں کے ساتھ کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ کیو کہتی ہیں، ’’میں نے کچھ تحقیق کی اور اپنے بیضے منجمد کرانے کا فیصلہ کر لیا‘‘۔
لائی ہسنگ ہوا بیضے منجمد کرنے کے کلینک کے ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کے مطابق انہیں بیضے منجمد کرنے کی ضرورت کا اندازہ اس وقت ہوا، جب بہت دیر سے شادی کرنے والے جوڑوں نے بیضے عطیہ کرنے والوں کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ ہسنگ ہوا کا کہنا ہے، ’’ہم نے سوچا کہ اگر یہ شادی شدہ جوڑے پہلے ہی اپنے بیضے منجمد کرا دیتے تو آج انہیں عطیہ کردہ بیضے استمعال کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور یوں ہم نے ان کے بیضہ دانوں کے بیضے بنانا ختم کرنے سے پہلے ان کے بیضے منجمد کرنے کا کام شروع کیا‘‘۔
اب ان کے کلینک پر ایک ماہ میں بیضے منجمد کرنے کے حوالے سے 100 سے زائد کالز موصول ہوتی ہیں۔ پانچ سال پہلے ان کے کلینک میں بیضے منجمد کروانے کے 20 کیسز آئے، 2011ء میں ان کیسز کی تعداد 70 تھی۔ گزشتہ سال ایسے کیسز کی تعداد 50 تھی جبکہ رواں برس کے پہلے 6 مہینوں میں ان کے پاس 40 کیسز آ چکے ہیں۔
ہسنگ ہوا کے مطابق اب اس ٹیکنالوجی میں بہت بہتری آ چکی ہے اور بیضوں کے کارآمد رہنے کا امکانات بھی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ بیضے منجمد کروانے کے عمل پر 2680 امریکی ڈالر لاگت آتی ہے اور منجمد شدہ بیضے صرف 20 منٹ کے کم وقت میں دوبارہ کارآمد بنائے جا سکتے ہیں۔