کیلاش میں موسم بہار کا تہوار
پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں وادی کیلاش واقع ہے۔ یہاں کی کیلاش اقلیت ہر سال موسم سرما کے اختتام پر جوشی ( بہار) تہوار مناتی ہے۔ کیلاش قبیلے کی آبادی تقریباﹰ چار ہزار افراد پر مشتمل ہے، جو اپنے مختلف خداؤں کی پوجا کرتی ہے۔
پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں وادی کیلاش واقع ہے۔ یہاں کی کیلاش اقلیت ہر سال موسم سرما کے اختتام پر جوشی ( بہار) تہوار مناتی ہے۔ کیلاش قبیلے کی آبادی تقریباﹰ چار ہزار افراد پر مشتمل ہے، جو اپنے مختلف خداؤں کی پوجا کرتی ہے۔
رواں برس اس تین روزہ تہوار کا آغاز 14 مئی کو ہوا۔ کچھ برس پہلے تک کیلاش قبیلے کے پاس نہ تو کیلنڈر تھے اور نہ ہی گھڑیاں۔ تہوار کی تاریخیں سورج کی پوزیشن دیکھتے ہوئے مقرر کی جاتی تھیں۔
وادی چترال میں جوشی تہوار کا مطلب سخت موسم کے خاتمے پر شکر کرنا بھی ہوتا ہے اور زیادہ پیداواری موسم بہار کا جشن منانا بھی۔ اس موقع پر شہد اور اچھی فصل کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔
کیلاش قبیلے کا زیادہ تر انحصار شمالی پاکستان کے ہندوکش پہاڑی سلسلے کی سرسبز وادیوں میں زراعت اور سیاحت پر ہے۔ کیلاش کمیونٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کے قبیلے کی بنیاد یونانی سکندر اعظم کے فوجیوں نے رکھی تھی۔
مؤرخین کے قریب آج بھی کیلاش قبیلے کا یہ دعویٰ بحث طلب ہے کہ ان کا تعلق سکندر اعظم کے جرنیلوں سے ہے۔ دوسری جانب یونان اور کیلاش کی ثقافت، طرز تعمیرات، موسیقی وغیرہ میں بہت سی چیزیں مماثلت رکھتی ہیں۔
کیلاش قبیلہ بھی یونانیوں کی طرح مختلف خداؤں کو ماننے والا ہے۔ ان کے مطابق ’خدائی‘ نامی ایک دیوتا ان کی روزمرّہ کی زندگی کا ذمہ دار ہے اور اسی کی خوشنودی کے لیے اس تہوار میں دودھ کی مصنوعات کا استعمال اور بکریوں کی قربانی کی جاتی ہے۔
جوشی تہوار کے پہلے دن کو ’دودھ کا دن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس قبیلے کے افراد رقص کرتے اور گانے گاتے ہوئے گھر گھر جاتے ہیں۔ ہر گھر سے انہیں دودھ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دودھ اس تہوار سے دس روز پہلے ہی جمع کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔
اس تہوار کے موقع پر کم از کم چار سال کی عمر میں بچوں کو ویسے ہی کپڑے پہنائے جاتے ہیں، جیسے بڑے پہنتے ہیں۔ چار سال کی عمر میں بچوں کو باقاعدہ طور پر تہوار میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔
چار برس سے پہلے بچوں کو سادہ کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ اس تہوار کے موقع پر خواتین مخصوص اور رنگ برنگے ملبوسات پہنتی ہیں جبکہ زیادہ تر مرد اب پاکستانی شلوار اور قمیض کا استعمال کرتے ہیں۔
کیلاش کی خوش رنگ خواتین کے رنگیلے کپڑے سیاحوں کے لیے بھی بہت پرکشش ہیں۔ خواتین کے سیاہ لمبے بال اور ان پر کڑھائی والی مخصوص لمبی ٹوپیاں اس تہوار کو مزید دلکش بناتی ہیں۔ اس موقع پر غیر ملکی سیاح بھی پاکستان پہنچتے ہیں۔
ایک دوسرے کے ساتھ کندا ملا کر رقص کرنا اس تہوار کی خصوصیت ہے اور ڈھول اس میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ رقص کے دوران لڑکیاں اور لڑکے مذاق کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت بھری نگاہیں بھی دو چار کرتے ہیں۔
تہوار میں مرد گلوکاروں کو خوش ہو کر پیسے بھی دیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار بوسے بھی۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو کیلاش قبیلہ دیگر پاکستانیوں کی نسبت زیادہ ’آزاد خیال‘ تصور کیا جاتا ہے۔
جوشی تہوار کے تیسرے اور آخری دن رقص اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ مرد اور عورتیں اس دن علیحدہ علیحدہ روایتی ڈانس کرتے ہیں۔ ہر ایک کے ہاتھ میں اخروٹ کے درخت کی ٹہنیاں ہوتی ہیں اور بدروحوں کے اثرات دور کرنے کے لیے انہیں نعرہ لگاتے ہوئے ہوا میں پھینک دیا جاتا ہے۔
کیلاش قبیلے کی روایات اسلام کے برعکس ہیں۔ اس لیے اس علاقے کو ’کافرستان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک کونے پر واقع اس وادی کو ایک واحد سڑک باقی پاکستان سے ملاتی ہے۔ جدید سہولتیں یہاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔