کیلے کے مہاجر بچوں کی برطانیہ کے خلاف قانونی کارروائی
31 دسمبر 2016رواں برس کے آغاز پر انتہائی خستہ حالی کے شکار کیلے کے مہاجر کیمپ سے ان 36 بچوں کو برطانیہ پہنچایا گیا تھا۔ برطانوی حکومت کی جانب سے ان کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دیے جانے کے بعد انہیں برطانیہ چھوڑنے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ تاہم ان بچوں کے وکیل توفیق حسین اس معاملے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر چکے ہیں اور ان کی جانب سے ملک بدری کے حکومتی فیصلے پر نظرثانی کے لیے اپیل جمع کرائی گئی ہے۔
حسین کا کہنا ہے کہ جنگل کے نام سے مشہور شمالی فرانس کی مہاجر بستی کی بندش کے وقت برطانیہ نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ لاوارث یا تنہا بچوں کو اپنے ہاں جگہ دے گا، تاہم اس نے اپنے وعدے ایفا نہیں کیے۔ کیلے کی مہاجر بستی رواں برس اکتوبر میں مکمل طور پر ختم کر دی گئی تھی۔ برطانوی حکومت کی جانب سے یہ وعدے کیمپ کی مکمل بندش سے قبل کیے گئے تھے۔
اس کیمپ میں موجود بالغ مہاجرین اور تارکین وطن کو فرانس کے مختلف علاقوں میں قائم مہاجر مراکز میں منتقل کر دیا گیا تھا، تاہم برطانیہ نے یہاں موجود لاوارث اور تنہا بچوں کو اپنے ہاں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرانے کی اجازت دی تھی۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت بچوں کے سے کیے گئے وعدوں سے انحراف کر رہی ہے اور اب تک حکام اس بات پر اتفاق تک نہیں کر پائے ہیں کہ ان بچوں میں سے کسی برطانیہ میں قیام کی اجازت دی جانا چاہیے۔
وکلاء کے مطابق برطانوی حکام نے ان بچوں کو قیام کی اجازت دینے سے متعلق سخت ترین ضوابط متعارف کروا دیے ہیں، جن کے مطابق صرف انہی بچوں کو برطانیہ میں قیام کی اجازت ہے، جن کی عمریں 12 برس سے کم ہیں اور جنہیں جنسی استحصال کے خطرات کا سامنا ہے یا سوڈان اور شام سے تعلق رکھنے والے وہ بچے، جن کی عمریں 15 برس سے کم ہیں۔
حسین کے مطابق ان کے موکل بچوں میں سے 28 اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کیے جانے کی تحریری وجوہات جاننا چاہتے ہیں، جب کہ آٹھ وہ ہیں، جو ابھی تک اپنی درخواستوں پر فیصلے کے منتظر ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ ان کے موکل نابالغ بچوں میں سے 14 تا 17 برس کی عمروں کے وہ نوجوان ہیں، جن کا تعلق اریٹریا، افغانستان اور سوڈان سے ہے۔