1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

کینیڈا، ’ایک افغان مہاجر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘

18 اگست 2021

پچھلے چھ روز میں افغان محقق محمد احسان سعادت اور ان کے اہل خانہ کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ کینیڈا میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کراتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/3z7vX
Usbekistan Taschkent | Ankunft Evakuierungsflug aus Kabul
تصویر: Bundeswehr

ایک طرف سعادت خود کو خوش قسمت قرار دے رہے ہیں کہ انہیں کینیڈا میں نئی زندگی کی شروعات کا موقع مل رہا ہے ساتھ ہی وہ پیچھے رہ جانے والوں کا سوچ کر رو رہے ہیں۔

ٹورونٹو پہنچنے پر خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں محمد احسان سعادت نے کہا، ''جولائی کے شروع ہی سے میں نے افغانستان چھوڑنے کا سوچنا شروع کر دیا تھا۔ مگر میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ طالبان اتنے جلدی کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں۔

افغان فوج کیسے تاش کے پتوں کا محل ثابت ہوئی؟

طالبان کے کابل پر قبضے سے آئی ایس اور القاعدہ کو کتنا فائدہ ہوگا؟

اتوار کے روز افغان صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہو جانے کے بعد طالبان نے کابل میں صدارتی محل پر قبضہ کر لیا تھا اور بیس برس بعد افغانستان کا کنٹرول دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ سن 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔

طالبان کی جانب سے پیش قدمی میں تیزی آئی تھی تو کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے 20 ہزار افغان مہاجرین کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ احسان کا تحقیقی کام 'کرپشن، خواتین کے حقوق، انسانی حقوق اور حقوقِ اطفال‘ پر ہے، اور اسی تناظر میں انہیں لگتا ہے کہ وہ طالبان کا ہدف بن سکتے ہیں۔

ان کی سیاسی پناہ کی درخواست پر فیصلہ ریکارڈ ایک ہفتے کے اندر اندر ہو گیا ۔ وہ اب کینیڈا میں قانونی طور پر سکونت اختیار کر سکتے ہیں۔ ''یہ ناقابل یقین تھا۔ ہمیں اس پر بہت خوشی ہے۔ ‘‘

طالبان کے قبضے کے بعد افغان ملک سے فرار کیوں چاہتے ہیں؟

فوراﹰ ہی پورے خاندان نے بوریا بسترا لپیٹا اور کینیڈا پہنچ گئے۔ ان کی اہلیہ کی خواہش ہے کہ وہ کینیڈا میں ڈرائیونگ سیکھیں جب کہ وہ خود کو انگریزی سیکھنے کے لیے بھی رجسٹرڈ کروانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

سعادت اس وقت دیگر بین الاقوامی مسافروں کی طرح 14 روز کے قرنطینہ دورانیہ گزار رہے ہیں، تاہم وہ کہتے ہیں، ''میں کبھی کبھی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر سوچتا ہوں کہ میں یہاں کیسے پہنچا؟ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ اب میں افغانستان میں نہیں ہوں۔‘‘

ع ت، ک م (اے ایف پی)