گاڑیوں کا ارتقا کیسے ہوا؟
11 اپریل 2021اگر آپ دنیا کی پہلی گاڑی کا تصور کریں تو آپ کے ذہن میں کیسا نقشہ ابھرے گا؟ شاید درخت کی شاخوں سے بنی گاڑی، جس کے پہیے پتھر کے ہوں گے؟ یا کوئی بہت ہی پتلی سی بگی۔ ابتدائی گاڑیوں سے آج کی گاڑیوں کے درمیان خاصا وقتی فاصلہ ہے، مگر بہ غور دیکھیں تو زیادہ تر چیزیں جوں کی توں ہی ہیں۔
بھاپ اور بجلی سے چلنے والی ابتدائی گاڑیاں
آپ کو شاید حیرت ہو کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا خیالیہ نیا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی گاڑیاں بھاپ اور بجلی پر ہی چلا کرتی تھیں۔ یہ گاڑیاں اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی میں استعمال کی جاتی رہیں۔
سب سے پہلے گاڑیاں بھاپ سے چلائی گئیں۔ تاہم ابتدا میں توانائی کا یہ ذریعہ برسوں تک فقط ٹرینیں چلانے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ چھوٹی گاڑیوں کے لیے بھاپ انجن 1870 کی دہائی میں بن پائے۔ لیکن بھاپ سے چلنے والی چھوٹی گاڑیوں کو اسٹارٹ کرنے میں بہت وقت درکار ہوتا تھا اور یہ بہت دور تک لے جا بھی نہیں سکتیں تھیں۔
دوسری جانب انیسویں صدی کے آغاز پر بجلی سے چلنے والی بگیاں بنائی گئیں۔ تاہم کئی دہائیں بعد انگلینڈ اور فرانس کے موجدوں نے آج کی گاڑیوں سے بہت حد تک مشابہت رکھنے والی گاڑیاں تخلیق کیں۔ 1890 میں ویلیم موریسن نے امریکا میں پہلی الیکٹرک گاڑی بنائی۔ یہ گاڑی 14 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی تھی اور چھ افراد کا بوجھ اٹھا لیتی تھی۔ اس کے فقط دس برس کے اندر اندر امریکا میں چلنے والی ایک تہائی گاڑیاں الیکٹرک تھیں۔
اس وقت تک گیس پر چلنے والی گاڑیاں بھی بننے لگیں تھیں۔ اسی دوران 1898 میں فیرڈینانڈ پورشے نے ایک انقلابی کام کیا۔ انہوں نے پہلی ہائیبرڈ گاڑی تخلیق کی جو الیکٹرک اور گیس سے چلتی تھی۔ یہ وہ تصور تھا، جس طرز پر اس کے قریب سو سال بعد ہائبرڈ گاڑیاں بنائی گئیں۔
گیس سے چلنے والی گاڑیاں ہر جانب
1885 میں کال بینز نے پہلی گیس پاورڈ گاڑی تخلیق کی تھی۔ 1886 میں اسے پیٹنٹ کیا گیا۔ بینز کی پہلی گاڑی تین پہیوں والی تھی اور اس پر دو افراد سوار ہوتے تھے۔ 1891 میں چار پہیوں والی گیس پاورڈ گاڑیوں کی تخلیق کا عمل شروع ہوا۔ گیس سے چلنے والی گاڑیوں کو ہی آٹوموبائل صنعت میں انقلاب اور ایک نیا باب سمجھا جاتا ہے۔
ابتدائی گاڑیوں میں ونڈ اسکرین، دروازے اور انڈیکیٹرز حتیٰ کے گول اسٹیئرنگ ویل بھی نہیں ہوتا تھا۔ تاہم کارل بینز کی گاڑیاں جدید گاڑیوں کے لیے مثالیہ بنیں اور بعد میں زیادہ تر کار سازوں نے کارل بینز ہی کے ماڈل کا استعمال کیا۔
کارساز صنعت کا درجہ مرکزی
گاڑیوں کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع ہوئی تو اس صنعت نے اقتصادیات میں ایک اہم جگہ بنا لی۔ اس کے ساتھ ساتھ گاڑیاں بھی جدت کے نئے موڑ مڑتی چلی گئیں۔ گاڑیوں میں سیٹ بیلٹس، اسپیڈو میٹرز، ونڈ شیلڈز اور پیچھے دیکھنے کے لیے آئینے لگائے گئے۔ آپ کو حیرانی ہو گی کہ گاڑیوں میں پہلی بار انڈیکیٹر کا استعمال 1939 میں ہوا۔ حالاں کہ اس سے قبل ہی ایئرکنڈیشنر حتیٰ کے الیکٹرک ونڈوز استعمال کی جا رہی تھیں۔ اس کے بعد کاریں ایک کے بعد ایک فینسی ہوتی چلی گئیں۔
1951 میں پہلی بار پاور اسٹیرنگ، 1957 میں کروز کنٹرول، 1959 میں تھری پوائنٹ سیٹ بیلٹ اور 1966 میں گرم ہونے والی سیٹیوں کا استعمال شروع ہوا۔ 1973 میں پہلی بار پیسنجر ایئربیگ لگائے گئے، جب کہ 1998 میں امریکا میں کسی بھی گاڑی کو سڑک پر آنے کے لیے ایئربیگ لازم قرار دیے گئے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں بغیر چابی دروازے کھلنے کا نظام، الیکٹرک ڈور، ونڈوز، سن روف اور سٹی ڈی پلیئرز وغیرہ کے فیچرز کا عام استعمال شروع ہو گیا۔
ایک بار پھر الیکٹرک گاڑیاں
ماحولیاتی تبدیلیوں اور زمینی درجہ حرارت میں اضافے کے تناظر میں اب ایک بار پھر کارساز صنعت غیرمعمولی تیز رفتاری سے الیکٹرک گاڑیوں کی جانب مڑ رہی ہے۔ تاہم ابتدائی گاڑیوں کے مقابلے میں جدید الیکٹرک گاڑیوں میں تمام تر فینسی لوازمات اپنی جگہ پر بدستور موجود ہیں بلکہ ان میں کئی معنوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اب خودکار گاڑیوں، کمپیوٹرائزڈ ڈیش بورڈ، جدید ترین نیویگیشن نظام اور نِت نئے خواص جدید گاڑیوں کا حصہ ہیں، جب کہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پیٹرول پمپس میں تیز رفتار چارجنگ کے لیے خصوصی مقامات بنائے جا رہے ہیں۔