1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گجرات پینل کی رپورٹ، مودی پرکڑی تنقید

4 فروری 2011

بھارتی ریاست گجرات میں 2002ء میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی تحقیقات کرنے والے ایک پینل نے صوبے کے ہندو قوم پسند وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر کڑی تنقید کی ہے۔

https://p.dw.com/p/10Aca
تصویر: AP

نریندر مودی پر یہ تنقید صورتحال سے درست انداز میں نمٹنے کی بجائے جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے پر کی گئی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ اس خصوصی پینل کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق نریندر مودی نے ان فسادات کے وقت پائی جانے والی کشیدگی کو جانتے بوجھتے ہوئے کم کر کے پیش کیا۔ ان فسادات میں دو ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

Narendra Modi bei Wahlkampfveranstaltung
گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھتے ہیںتصویر: UNI

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اپنی رپورٹ میں اس خصوصی پینل نے م‍حسوس کیا ہے کہ وہ اتنے حقائق پر سے پردہ نہیں اٹھا سکا، جن کی بنیاد پر کوئی فوجداری مقدمہ قائم کیا جا سکتا۔

گجرات میں ہونے والے یہ خونریز واقعات برصغیر کی تقسیم کے بعد سے بھارت میں ہونے والے خونریز ترین مذہبی فسادات میں شمار ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان فسادات میں ہندو بلوائیوں نے زیادہ تر مسلم آبادی والے علاقوں پر حملے کرتے ہوئے تین دن تک آتشزنی اور لوٹ مار کا بازار گرم رکھا تھا اور فائرنگ اور مسلح حملوں کے واقعات میں دو ہزار مسلمانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

یہ فسادات اس واقعے کے بعد دیکھنے میں آئے تھے، جس میں ہندو زائرین سے بھری ایک ٹرین کو آگ لگا دینے کے باعث 59 ہندو یاتری ہلاک ہو گئے تھے۔ گو کہ اس حملے کے واضح طور پر ذمہ دار عناصر کا فوری طور پر علم نہیں ہو سکا تھا تاہم کئی ہندو گروپوں کی جانب سے اس کا الزام مسلمان مظ‍اہرین پر عائد کیا گیا تھا۔

Kaschmir Kashmir Indien Polizei Protest Demonstration Muslime Steine
احمدآباد کے مسلم کش فسادات میں دو ہزار سے زائد مسلمان ہلاک ہوئے تھےتصویر: AP

نریندر مودی 2001ء سے گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں اور ان پر حقوق انسانی کی تنظیموں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ان فسادات سے نہ صرف نظریں پھیر لی تھیں بلکہ بعض حلقوں کے خیال میں تو ایسا کرتے ہوئے انہوں نے ان فسادات کی مبینہ طور پر حوصلہ افزائی بھی کی تھی۔

گجرات میں ان فسادات کی تحقیقات کرنے والے اس پینل کو مودی اور ان کی حکومت کے خلاف صرف کم اہمیت کے الزامات کے شواہد ہی ملے ہیں جبکہ ان پر مجرمانہ کوتاہی برتنے کے الزام کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

اس پینل کے مطابق، ’باوجود اس حقیقت کےکہ مسلمانوں پر ہونے والے حملے بہت بھیانک اور پرتشدد تھے، حکومت کی جانب سے اس پر ظاہر کیا گیا ردعمل اس قسم کا نہیں تھا جیسا کہ کوئی امید کرتا ہے‘۔ اس پینل نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ مودی نے ’صورتحال کی سنجیدگی کو کم کر کے پیش کرنے کی کوشش‘ کی تھی۔ ’’مودی نے اقلیتی برادری کے معصوم لوگوں کے قتل کا نہ صرف معنوی جواز فراہم کیا بلکہ انہوں نے ان پرتشدد واقعات کی مذمت بھی نہیں کی۔‘‘

Der Ministerpräsident von Gujarat Narendra Modi
مودی اور ان کی حکومت نے مسلم کش فسادات کی سنجیدگی کو دبانے کی کوشش کی تھیتصویر: UNI

رپورٹ تیار کرنے والے پینل کی رائے میں ان سب کے علاوہ ان فسادات کے سلسلے میں نریندر مودی کے امتیازی رویے کو بھی خاص طور پر نوٹ کیا گیا۔ مثلاﹰ انہوں نے اس جگہ کا دورہ تو کیا جہاں آتشزنی کا شکار ہونے والی ہندو یاتریوں کی ریل گاڑی کھڑی تھی مگر انہوں نے مسلم کش فسادات سے متاثرہ گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد کا دورہ نہیں کیا تھا۔

اسی دوران خود وزیر اعلیٰ مودی نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ نریندر مودی بھارتی پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی اور ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی BJP کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ 2002ء میں گجرات میں خونریز فسادات کے سلسلے میں اپنی شخصیت پر لگنے والے داغ کے باوجود بہت سے لوگوں کی نظر میں نریندر مودی مستقبل میں ملکی وزیر اعظم کے عہدے کے لیے امیدوار بھی ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں