1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گراس کے مشہور ناول ’’دا ٹن ڈرم‘‘ کی گولڈن جوبلی

28 اکتوبر 2009

سن 1999ء میں ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے مشہور جرمن ا دیب گنٹر گراس کا پانچ عشرے پہلے کا ناول Die Blechtrommel انگریزی زبان میں ’’دا ٹِن ڈرم‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور اِس پر بننے والی فلم بھی بے حد مقبول ہوئی۔

https://p.dw.com/p/KHeC
تصویر: picture-alliance/ dpa

ایک کتاب تھی، جرمن زبان میں۔ نام تھا جس کا: دی بلیش ٹرومل یعنی دا ٹِن ڈرم۔ ٹھیک پچاس سال پہلے شائع ہونے والی اِس کتاب کے مصنف تھے، گنٹر گراس۔ جرمنی کے دورِ حاضر کے ممتاز ادیبوں میں شمار ہونے والے یہی گنٹر گراس آج کل بیاسی برس کے ہیں اور دَس سال پہلے اُن کے حصے میں آیا تھا، نوبل انعام برائے ادب بھی۔ حال ہی میں اُنہوں نے اپنے اِس ناول ’’دا ٹِن ڈرم‘‘ کی گولڈن جوبلی منائی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے جرمنی کی یہ پہلی ہنگامہ خیز ادبی تخلیق تھی، جو عالمی ادب کا حصہ قرار پائی۔

Pfeife und Buch
گنٹر گراس کو سن 1999ء میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

اِس ناول کا مرکزی کردار تیس سالہ آسکر ماٹسے راتھ ہے۔ کہانی کے مطابق وہ سن 1924ء میں پولینڈ کے شہر گڈانسک میں ایک جرمن خاندان میں پیدا ہوتا ہے اور بچپن ہی سے اپنے اردگرد کے حالات کی فوری طرح سے سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ اپنے خاندان میں پائی جانے والی منافقت سے دلبرداشتہ ہو کر وہ تین سال کی عمر میں ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ آئندہ اپنا قد بڑھنے نہیں دے گا۔ اِس مقصد کے لئے وہ خود کو تہہ خانے کی سیڑھیوں سے نیچے گرا دیتا ہے۔ یہ اُس کی تیسری سالگرہ کا دن ہوتا ہے۔ اُس روز اُسے تحفے کے طور پر ایک ٹِن ڈرم بھی ملتا ہے۔

بعد ازاں جب کبھی آسکر کو اپنے اردگرد کے حالات پر غصہ آتا ہے، وہ بے رحمی سے یہ ڈرم بجانے لگتا ہے۔ اور کچھ برس گذرنے کے بعد آسکر پر اپنی ایک اور صلاحیت منکشف ہوتی ہے۔ جب ایک روز اُس سے اُس کا ڈرم چھیننے کی کوش کی جاتی ہے تو وہ اِس زور سے چیختا ہے کہ اردگرد تمام شیشے ٹوٹ جاتے ہیں۔ یوں آسکر کے ہاتھ اپنے اردگرد کے ماحول کو قابو میں رکھنے کا ایک ہتھیار آجاتا ہے۔

آسکر کی والدہ کے تعلقات بیک وقت دو مردوں سے ہوتے ہیں، ایک جرمن ہے اور دوسرا پولستانی۔ کہانی اُس دَور کی ہے، جب نازی سوشلسٹ اِس پولستانی شہر پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں اور یہودیو ں کے لئے جینا دُوبھر کر دیا گیا ہے۔ یوں آسکر کی صورت میں ایک ایسے کردار کی آنکھ سے، جو قد میں ایک بچے کی طرح ہے لیکن سمجھ بوجھ میں بالغ ہے، دوسری عالمی جنگ سے پہلے اور اُس کے دوران پیش آنے والے واقعات اور نازی سوشلسٹوں کے عروج و زوال کو دکھایا گیا ہے۔

Frankfurter Buchmesse: Performance Günter Grass & Günter Sommer (Drums)
فرینکفرٹ کتاب میلے میں گراس نے ایک گھنٹے تک اپنی اِس کتاب میں سے اقتباسات پڑھ کر سنائےتصویر: Frankfurter Buchmesse / Fernando Baptista

حال ہی میں فرینکفرٹ میں منعقدہ سالانہ کتاب میلے میں ایک تقریب میں گراس نے ایک گھنٹے تک اپنی اِس کتاب میں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے اپنی آپ بیتی ’’میری صدی‘‘ میں سے بھی وہ حصے پڑھے، جن میں بتایا گیا تھا کہ کیسے اُس زمانے میں اُن کے اِس پہلے ناول کی پذیرائی ہوئی تھی۔

ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے ایک بار گنٹر گراس نے اِس ناول کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا تھا:’’1959ء میں اِس ناول کی اشاعت کے بعد سے بہت کچھ بدل گیا۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ میرے ہاتھ میں پیسہ آیا۔ اُس سے پہلے تک، خاص طور پر جب مَیں یہ کتاب لکھ رہا تھا، میری گذر اوقات بڑی مشکل سے ہو رہی تھی۔ تب مجھے وہ کچھ حاصل ہوا، جس کی بہت سے ادیب بجا طور پر خواہش کرتے ہیں، مالی معاملات میں کسی کا محتاج نہ رہنا۔‘‘

گنٹر گراس کے اِس ناول پر اِسی نام سے فلم بھی بنی، سن 1979ء میں، جس نے فرانس میں کان کے بین الاقوامی فلمی میلے کی بہترین فلم کے گولڈن پام اعزاز کے ساتھ ساتھ بہترین غیر ملکی فلم کا آسکر ایوارڈ بھی جیتا۔

رپورٹ : امجد علی

ادارت : عاطف توقیر