1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتبنگلہ دیش

گرفتاریاں اور ہلاکتیں لیکن بنگلہ دیشی اسٹوڈنٹس جیت گئے!

22 جولائی 2024

بنگلہ دیشی پولیس کے مطابق بدامنی اور تشدد کے الزامات کے تحت 500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں مرکزی اپوزیشن پارٹی کے مقبول رہنما بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں نے اس خونی کریک ڈاؤن پر شدید تنقید کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ia0d
Studentenproteste in Bangladesch
تصویر: Zabed Hasnain Chowdhury/IMAGO/SOPA Images

بنگلہ دیش کی پولیس کے مطابق مظاہروں کے دوران بدامنی اور تشدد کے الزامات کے تحت 500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں مرکزی اپوزیشن پارٹی کے مقبول رہنما بھی شامل ہیں۔

بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کی میٹروپولٹین پولیس کے ترجمان فاروق حسین نے 22 جولائی بروز پیر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پرتشدد مظاہروں کے دوران بدامنی پھیلانے کے الزام میں 532 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے ان گرفتار شدہ افراد میں اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے تیسرے سینیئر ترین رہنما امیر خسرو محمد چوہدری کے علاوہ اس پارٹی کے ترجمان راہل کبیر اور امین الحق بھی شامل ہیں۔

بنگلہ دیش: سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم بحالی کا عدالتی حکم مسترد کر دیا

بنگلہ دیش: مظاہرین کے خلاف کرفیو نافذ، شہروں میں فوجی گشت

قومی فٹ بال ٹیم کے سابق کپتان امین الحق نے سیاست میں قدم رکھتے ہوئے بی این پی کی رکنیت اختیار کی تھی۔ بی این پی کے ایک ترجمان اے۔ کے۔ ایم وحید الزمان نے کہا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں بنگلہ دیش بھر میں ان کی پارٹی کے سینکڑوں رہنماؤں اور حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

فاروق حسین کے مطابق اس کے علاوہ بنگلہ دیش کی تیسری سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے جنرل سیکریٹری میاں غلام پروار کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان مظاہروں کے دوران تین پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 100 کے قریب زخمی ہوئے، جن میں سے 60 کی حالت نازک ہے۔

بنگلہ دیشی طلباء کوٹہ سسٹم کے خلاف کیوں ہیں؟

بنگلہ دیش میں اب صورتحال کیا ہے؟

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے اعدادوشمار کے مطابق بنگلہ دیش میں ان مظاہروں کے دوران کم ازکم 163 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ملک بھر میں ہونے والے ان مظاہروں کے ردعمل میں حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

نہ صرف انسانی حقوق کی مقامی تنظیمیں بلکہ ہیومن رائٹس کے عالمی اداروں کے علاوہ سفارت کاروں نے بھی کریک ڈاؤن کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ تاہم بنگلہ دیشی وزیر خارجہ حسن محمود نے کہا ہے کہ اس تشدد کے ذمہ دار مظاہرین ہیں۔

بنگلہ دیش: طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں ہلاک

بنگلہ دیش میں طلبہ کے مظاہرے جاری، موبائل انٹرنیٹ سروس معطل

اگرچہ ملکی سپریم کورٹ نے اتوار کے دن کوٹہ سسٹم کے قانون میں ترمیم کر دی تھی تاہم متعدد اسٹوڈنٹ لیڈرز کا کہنا ہے کہ جب تک اس فیصلے پر عملدرآمد کا نوٹیفیکشن جاری نہیں ہوتا، وہ اپنے اس احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

کوٹہ سسٹم کیا ہے؟

کوٹہ سسٹم کے تحت اچھی تنخواہ والی سول سروسز، جن میں لاکھوں سرکاری ملازمتیں بھی شامل ہیں، کے عہدوں میں سے نصف سے زیادہ کو مخصوص گروپوں کے لیے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ ان گروپوں میں سن 1971 میں پاکستان سے آزادی کے لیے جنگ میں حصہ لینے والے افراد کے بچے بھی شامل ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کوٹہ سسٹم سے صرف حکومت نواز گروپوں کے بچوں کو فائدہ ہوتا ہے، جو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حمایت کرتے ہیں۔ حسینہ نے جنوری میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلسل چوتھی مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی۔ اپوزیشن نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔

بنگلہ دیش نے پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سن 1972 میں یہ کوٹہ سسٹم متعارف کرایا تھا۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے سن 2018 میں ہونے والے احتجاج کے بعد کوٹا سسٹم ختم کر دیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ اسے بحال کر دیا تھا۔

ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے تحت 56 فیصد سرکاری ملازمتیں کوٹے کے تحت دی جانا تھیں۔ اس میں بھی ایک بہت بڑا حصہ 30 فیصد جنگ آزادی لڑنے والوں کے بچوں کے لیے مختص تھا۔ اس کے علاوہ 10 فیصد ملازمتیں خواتین، 10 فیصد مخصوص اضلاع جبکہ چھ فیصد معذور افراد کے لیے ہیں۔

ع ب / ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں سے جڑا تنازعہ