1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گلوبل جینڈر گیپ انڈکس کیا ہے؟

شازیہ محبوب
5 جنوری 2025

پاکستانی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ خواتین کی بھرپور شمولیت کے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں ہے۔ پدر شاہی معاشرے میں صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کی خاطر پالیسی سطح پر اقدامات ناگزیر ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ojB2
Videostill | HER - Women in Asia | Staffel 2
تصویر: DW

ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ میں صنفی  امور کی بنیاد پر مختلف ممالک کی درجہ بندی کی جاتی  ہے کہ خاص طور پر پدر شاہی معاشروں سمیت دنیا بھر میں خواتین کو دستیاب سماجی اور اقتصادی مواقع کیسے اور کتنے ہیں؟

عالمی اقتصادی فورم کی طرف سے گیارہ جون کو جاری کردہ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2024 میں پاکستان 146 ممالک کی فہرست میں 145 ویں نمبر پر  شمار کیا گیا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تین درجے نیچے ہے۔ سن 2023 میں پاکستان اس فہرست میں ایک سو بیالیسویں نمبر پر تھا۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کو صنفی مساوات کے فروغ کے لیے معاشی شراکت، تعلیم، صحت اور سیاسی بااختیاریت کے چیلنجز پر قابو پانے کے لیے جامع پالیسی اصلاحات، سماجی رویوں میں تبدیلی اور ٹھوس اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔

گلوبل جینڈر گیپ کی اہمیت

پبلک پالیسی کے ماہر عامر جہانگیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس پاکستان کے لیے ایک آئینہ ہے، جو معاشی، تعلیمی، صحت اور سیاسی سطح پر صنفی مساوات کے حصول میں درپیش مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔

عامر جہانگیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ انڈیکس محض ایک درجہ بندی نہیں بلکہ ایک ایسا ٹول ہے، جو ان شعبوں کی نشاندہی کرتا ہے، جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ انڈیکس ایک ایسے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے، جو صرف خواتین تک ہی محدود نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو متاثر کرتا ہے، '' یہ ایک مضبوط اور زیادہ جامع  پاکستان کی تعمیر کے بارے میں ہے، جہاں ہر شخص، خواہ وہ کسی بھی جنس سے تعلق رکھتا ہو، ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔‘‘

پالیسیوں کے نفاذ میں بڑا خلا

سابق سفیر سیما الٰہی بلوچ  نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے پالیسیوں کے نفاذ میں بڑا خلا  ہے، جس کی وجہ سے جینڈر گیپ انڈیکس میں ملک کی درجہ بندی تنزلی کا شکار ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی شرح خواندگی بہت کم ہے اور صحت کے شعبے میں بھی مسائل ہیں، جہاں بہت سی خواتین بچے کی پیدائش کے دوران ہی ماری جاتی ہیں، ''سیاسی سطح پر خواتین کی نمائندگی صرف علامتی ہے، کیونکہ وہ مخصوص نشستوں پر تو موجود ہیں لیکن اہم فیصلے کرنے کی آزادی سے محروم ہیں۔‘‘ 

دقیانوسی اور فرسودہ تصورات

آبادیاتی امور کی ماہر ڈاکٹر درنایاب کہتی ہیں کہ بالخصوص دیہی علاقوں میں ایک ایسے صنفی حساس نصاب کے فروغ کی ضرورت ہے، جو تعلیمی رسائی بڑھاتا ہے، دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرتا ہے اور معاشرے میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

پدرشاہی معاشرے کا چیلنج

سیما الٰہی بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پدرشاہی نظام کا گہرا اثر ہے،  جہاں اکثر فیصلے مردوں کے حق میں کیے جاتے ہیں اور خواتین کو فیصلہ سازی سے باہر رکھا جاتا ہے، جو صنفی عدم مساوات کا سبب ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''یہی وجہ ہے کہ معیشت میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کے باوجود ان کی تعداد کم ہے، جس کے باعث جینڈر گیپ انڈیکس میں بہتری کے لیے تیز اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘

دقیانوسی نظریات کو چیلنج کرتی پاکستانی خواتین

پالیسی سازی میں تحقیق کی کمی

صنفی ماہر ڈاکٹر فہد ذوالفقار کے بقول سب سے اہم بات یہ ہے کہ متبادل تحقیق کو پالیسی مباحثوں میں کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟  انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں فیلڈ تحقیق پالیسی سازی کا حصہ نہیں بن رہی، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ پالیسی سازوں کے لیے صنفی امور ترجیح نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا، '' اگر صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک اور خواتین کی بااختیاری کو پالیسی فریم ورک کا حصہ نہیں بنایا جاتا، تو جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے کوئی مؤثر اصلاحات ممکن نہیں ہو سکتیں۔‘‘

ڈاکٹر ذوالفقار کا مزید کہنا ہے کہ صنفی فرق کو مؤثر طریقے سے کم کرنے کے لیے پالیسی سازوں اور تعلیمی اداروں کے درمیان مضبوط تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اعداد و شمار کی تیاری اور نمائندگی ایک بڑا چیلنج ہے، جب اہم اعدادوشمار میں صنفی معلومات درست طریقے سے شامل نہیں کی جاتیں تو معاشرتی مسائل نظرانداز  ہو جاتے ہیں۔

صنفی تفاوت کے مسائل

ڈاکٹر درنایاب نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صنفی تفاوت کی چار اہم جہتوں کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے، جن میں اقتصادی شراکت اور مواقع،  تعلیمی حصول، صحت و بقا اور سیاسی بااختیاریت شامل ہیں۔

ڈاکٹر درنایاب کہتی ہیں، '' یہ مسائل پاکستان میں بلند سطحوں پر موجود ہیں اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں، چاہے وہ انفرادی ہو، گھریلو، مائیکرو یا میکرو سطح پر۔ تمام شہریوں اور تمام جنسوں کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بنانے کے لیے ان خلا کو پُر کرنا ناگزیر ہے۔‘‘

قومی ترقی کے لیے صنفی بااختیاریت

عامر جہانگیر کے بقول پاکستان کے لیے صنفی بااختیاریت کا مطلب صرف خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہی نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ناگزیر ہے۔

عامر جہانگیر قائل ہیں کہ یہ محض ایک پالیسی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک قومی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صنفی مساوات کا براہ راست تعلق معاشی ترقی اور عالمی مسابقت سے ہے۔

ان کا اصرار ہے کہ ایسے ممالک جو شمولیت کو ترجیح دیتے ہیں،  وہ زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرتے ہیں، جدت کو فروغ دیتے ہیں اور پائیدار معیشتیں تشکیل دیتے ہیں۔ گلوبل جینڈر گیپ انڈکس میں بہتر پوزیشن کی بدولت پاکستان کا عالمی تشخص بہتر ہو گا۔

'پاکستان میں سیاست پر بات ہوتی ہے، خواتین کے مسائل پر نہیں'

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید